تری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
ــــــ
فیض احمد فیضؔ کی مجھ سے پہلی سی محبت ۔۔۔

نورجہاں کہا کرتی تھیں کہ یہ ان کی اپنی بنائ دھن ہے
اور صاحب کہہ لینے دیجیے نورجہاں سے بہتر کوئی اور یہ جگہ کیسے لے سکتا تھا
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہوجائے

کہنے والے کہتے ہیں کہ نور جہاں کی آواز میں اسے شہرتِ دوام ملنے کے بعد فیضؔ صاحب سے جب کبھی اس نظم کو سنانے کی فرمائش ہوتی تو کہا کرتے
وہ گیت اب میرا کہاں، وہ تو نورجہاں کا ہوگیا

اور صاحب اسی گیت کے ایک لازوال مصرعے سے ایک اور یاد جڑی ہے، لگے ہاتھوں اس کا ذکربھی ہوجائے
فیض صاحب کی کیا خوب نظم ہے جس کاشعر ہے
ہم جیتے جی مصروف رہے
کچھ عشق کیا کچھ کام کیا
اس نظم کے اختتامیے میں جہاں فیضؔ صاحب کام اور عشق دونوں کو ادھورا چھوڑدینے کا ذکر کرتے ہیں وہاں ہمارے آپ کے ہر دلعزیز مشتاق احمد یوسفی ؔ گویا ہوتے ہیں کہ کام یعنی شاعری کے معاملے میں تو انہوں نے غلط بیانی کی حد کو چھوتی ہوئی کسرنفسی سے کام لیا ہے
رہی بات عشق کی تو ہمارے ہاں کاروبار عشق جس فراغت ، محنت، مشقت اور خواری کا طالب ہے، فیضؔ صاحب کی فطری کاہلی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی
فیضؔ صاحب کا مشہورمصرعہ ہے

؎ راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

مرزا عبدالودود بیگ کہتے ہیں ، ناکام عاشقوں کا یہ ترانہ ٔ ملّی ہے
You can follow @meemainseen.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.