1_تنگ جوتے کی تکلیف
گورنر صاحب نیچے آئے‘ مونچھوں کو تاﺅ دیا اور بھاری آواز میں بولے ”کل مال روڈ پر کوئی طالب علم نظر نہیں آنا چاہیے خواہ آپ کو جلوس روکنے کےلئے گولی ہی کیوں نہ چلانی پڑ جائے“.
ایس ایس پی کے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ وہ گھبرا کر جیب میں رومال ٹٹولنے لگا.
#قلمکار
گورنر صاحب نیچے آئے‘ مونچھوں کو تاﺅ دیا اور بھاری آواز میں بولے ”کل مال روڈ پر کوئی طالب علم نظر نہیں آنا چاہیے خواہ آپ کو جلوس روکنے کےلئے گولی ہی کیوں نہ چلانی پڑ جائے“.
ایس ایس پی کے ماتھے پر پسینہ آ گیا‘ وہ گھبرا کر جیب میں رومال ٹٹولنے لگا.
#قلمکار
2_گورنر صاحب اپنے دفتر کی طرف چل پڑے‘ ایس ایس پی لپک کر ان کے پیچھے دوڑا اور سانس سنبھالتے سنبھالتے بولا ”سر لیکن مجھے اس کےلئے آپ کا تحریری حکم چاہیے ہو گا“ ۔
گورنر صاحب غصے سے دھاڑے ”کیا میرا زبانی حکم کافی نہیں“
#قلمکار
گورنر صاحب غصے سے دھاڑے ”کیا میرا زبانی حکم کافی نہیں“
#قلمکار
3_ایس ایس پی کی گردن تک پسینے سے بھیگ گئی‘ وہ رک رک کر بولا ”سر ہم تحریری حکم کے بغیر گولی نہیں چلا سکتے“.
گورنر نے غصے سے گردن ہلائی اور زور سے آواز لگائی ”سیکرٹری کہاں ہے!“ گورنر کی آواز پورے گورنر ہاﺅس میں گونجی‘ دھڑا دھڑ دروازے کھلے
#قلمکار
گورنر نے غصے سے گردن ہلائی اور زور سے آواز لگائی ”سیکرٹری کہاں ہے!“ گورنر کی آواز پورے گورنر ہاﺅس میں گونجی‘ دھڑا دھڑ دروازے کھلے
#قلمکار
4_اور ہر قسم کا سیکرٹری پیش ہو گیا‘ گورنر نے سب کی طرف دیکھا اور اونچی آواز میں کہا ”میں نے ایس ایس پی کو سٹوڈنٹس پر گولی چلانے کا حکم دے دیا ہے‘ یہ جو کاغذ‘ جو تحریری حکم مانگیں آپ انہیں دے دیں لیکن مجھے کل مال روڈ پر کوئی طالب علم نظر نہیں آنا چاہیے
#قلمکار
#قلمکار
5_اور جو آئے اسے زندہ واپس نہیں جانا چاہیے“.
کوریڈور میں سراسیمگی‘ خوف اور پریشانی کے ڈھیر لگ گئے اور تمام افسر خوف سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔یہ گورنر نواب آف کالا باغ تھے‘ یہ 1960ءسے 1966ءتک پنجاب کے گورنر رہے‘ پاکستان اس وقت مغربی پاکستان ہوتا تھا
#قلمکار
کوریڈور میں سراسیمگی‘ خوف اور پریشانی کے ڈھیر لگ گئے اور تمام افسر خوف سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔یہ گورنر نواب آف کالا باغ تھے‘ یہ 1960ءسے 1966ءتک پنجاب کے گورنر رہے‘ پاکستان اس وقت مغربی پاکستان ہوتا تھا
#قلمکار
6_اور نواب صاحب اس پورے مغربی پاکستان کے واحد گورنر تھے‘ یہ صرف چھ سال گورنر رہے لیکن پنجاب میں آج بھی ان کی انتظامی گرفت کی مثالیں دی جاتی ہیں‘ لوگ آج بھی کہتے ہیں پنجاب کی تاریخ میں حکمران صرف ایک ہی گزرا ہے اور وہ تھا نواب آف کالاباغ‘
#قلمکار
#قلمکار
7_نواب صاحب نڈر شخص تھے‘ ان کا ہر حکم کلیئر اور ڈائریکٹ ہوتا تھا اور وہ بعد ازاں اس کی ساری ذمہ داری بھی قبول کرتے تھے۔
یہ بھی مشہور تھا وہ حکم جاری کرنے کے بعد واپس نہیں لیتے تھے خواہ انہیں اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘ بیورو کریسی ان کی اس خو سے واقف تھی
#قلمکار
یہ بھی مشہور تھا وہ حکم جاری کرنے کے بعد واپس نہیں لیتے تھے خواہ انہیں اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے‘ بیورو کریسی ان کی اس خو سے واقف تھی
#قلمکار
8_چنانچہ نواب صاحب نے جب طالب علموں پر گولی چلانے کا حکم دیا تو گورنر ہاﺅس سے لے کر سیکرٹریٹ تک سراسیمگی پھیل گئی‘ مال روڈ پر طالب علموں پر گولی چلانا اور پھر لاشیں اٹھانا کوئی آسان کام نہیں تھا‘ یہ سانحہ ملک کی بنیادیں تک ہلا سکتا تھا
#قلمکار
#قلمکار
9_لیکن نواب صاحب کو سمجھانا ممکن نہیں تھا لہٰذا تمام افسر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔
افسروں نے اس ایشو کا کیا حل نکالا؟ ہم آپ کو یہ بتائیں گے لیکن آپ پہلے اس واقعے کا پس منظر ملاحظہ کیجئے‘ یہ ایوب خان کا دور تھا‘ ملک میں طالب علموں نے حکومت کے خلاف تحریک شروع کر رکھی تھی‘
افسروں نے اس ایشو کا کیا حل نکالا؟ ہم آپ کو یہ بتائیں گے لیکن آپ پہلے اس واقعے کا پس منظر ملاحظہ کیجئے‘ یہ ایوب خان کا دور تھا‘ ملک میں طالب علموں نے حکومت کے خلاف تحریک شروع کر رکھی تھی‘
10_حکومت پریشان ہو گئی‘ گورنر صاحب نے جلوس سے ایک دن پہلے ایس ایس پی کو بلا لیا‘ یہ صبح رہائشی کمرے سے نکلے تو ایس ایس پی سیڑھیوں کے نیچے کھڑا تھا‘ گورنر نے اسے دیکھا اور حکم جاری کر دیا”جلوس نہیں نکلنا چاہیے خواہ طالب علموں پر گولی ہی کیوں نہ چلانی پڑ جائے“
11_اور آپ باقی کہانی پڑھ چکے ہیں۔بیورو کریسی نے گورنر کو نتائج سے آگاہ کرنے کا فیصلہ کیا‘ نواب صاحب کو ذاتی ملازمین کے ذریعے رام کرنے کی کوشش کی گئی‘ نواب صاحب نے صاف انکار کر دیا۔
#قلمکار
#قلمکار
12_چیف سیکرٹری نے ڈرتے ڈرتے عرض کیا لیکن جھاڑ کھا کر واپس آ گیا اور نواب صاحب کے صاحبزادے نے سمجھانے کی ہمت کی لیکن وہ بھی گالیاں کھا کر باہرآ گیا‘ گورنر صاحب نے شام کے وقت گولی چلانے کا تحریری حکم بھی جاری کر دیا
#قلمکار
#قلمکار
13_اور یہ حکم اخبارات اور پورے صوبے کی بیورو کریسی تک بھی پہنچ گیا‘ اگلی صبح لاہور کی بیورو کریسی کےلئے مشکل ترین دن تھا‘ پولیس نے مال روڈ گھیر لیا‘ طالب علم کالجوں میں اکٹھے ہوئے‘ نعرے لگانا شروع کئے۔
پولیس نے رائفلیں سیدھی کر لیں اور پھر ایک حیران کن واقعہ پیش آیا
#قلمکار
پولیس نے رائفلیں سیدھی کر لیں اور پھر ایک حیران کن واقعہ پیش آیا
#قلمکار
14_‘ طالب علم نعرے لگانے کے بعد اپنی اپنی کلاسز میں واپس چلے گئے‘ ان میں سے کوئی مال روڈ پر نہیں نکلا‘ پولیس شام تک سڑک پر کھڑی رہی‘ صدر ایوب خان راولپنڈی میں بیٹھ کر لاہور کی صورت حال واچ کر رہے تھے‘ وہ طالب علموں کی پسپائی پر حیران رہ گئے
#قلمکار
#قلمکار
15_اور انہوں نے گورنر صاحب کو ٹیلی فون کر کے پوچھا ”نواب صاحب میں آپ کو مان گیا لیکن آپ نے یہ کیا کیسے؟“۔
نواب صاحب مونچھوں کو تاﺅ دیا کرتے تھے۔وہ بائیں مونچھ کو چٹکی میں دبا کر بولے ”صدر صاحب میں جانتا ہوں لاہور کے تمام بیورو کریٹس
#قلمکار
نواب صاحب مونچھوں کو تاﺅ دیا کرتے تھے۔وہ بائیں مونچھ کو چٹکی میں دبا کر بولے ”صدر صاحب میں جانتا ہوں لاہور کے تمام بیورو کریٹس
#قلمکار
16_کے بچے‘ بھانجے اور بھتیجے کالجوں میں پڑھتے ہیں‘ یہ افسر میری فطرت سے بھی واقف ہیں‘ یہ جانتے ہیں میں نے اگر گولی کا حکم دیا ہے تو پھر گولی ضرور چلے گی چنانچہ میں نے ان کی نفسیات سے کھیلنے کا فیصلہ کیا‘ میں نے حکم دے دیا‘
#قلمکار
#قلمکار
17_مجھے یقین تھا یہ لوگ کل اپنے بچوں کو کالج نہیں جانے دیں گے۔
ان کے بچے اپنے دوستوں کوبھی صورت حال کی نزاکت سے آگاہ کر دیں گے اور یوں کوئی طالب علم مال روڈ پر نہیں نکلے گا“ صدر ایوب خاموشی سے سنتے رہے‘ نواب آف کالا باغ نے اس کے بعد یہ تاریخی فقرہ کہا”
#قلمکار
ان کے بچے اپنے دوستوں کوبھی صورت حال کی نزاکت سے آگاہ کر دیں گے اور یوں کوئی طالب علم مال روڈ پر نہیں نکلے گا“ صدر ایوب خاموشی سے سنتے رہے‘ نواب آف کالا باغ نے اس کے بعد یہ تاریخی فقرہ کہا”
#قلمکار
18_صدر صاحب! انسان کی فطرت ہے یہ دوسروں کےلئے سخت اور اپنے لئے نرم فیصلے کرتا ہے اور میں ہمیشہ انسان کی اس خامی کا فائدہ اٹھاتا ہوں‘ میں اپنے فیصلوں میں فیصلہ کرنے والوں کا سٹیک شامل کر دیتا ہوں چنانچہ رزلٹ فوراً اور نرم آتا ہے“۔
#قلمکار
#قلمکار
19_نواب آف کالا باغ کی بات درست تھی‘ ہم انسان اپنی ذات سے متعلق فیصلے ہمیشہ اچھے اور جلدی کرتے ہیں جبکہ دوسروں کے فیصلے دہائیوں تک میز کی درازوں میں پڑے رہتے ہیں‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ پنجاب اسمبلی کا تازہ ترین فیصلہ دیکھ لیجئے‘پنجاب
#قلمکار
#قلمکار
20_اسمبلی نے 15 اگست2018ءکو حلف اٹھایا‘ 368 ارکان میں سات ماہ میں کسی ایک ایشو پر اتفاق رائے نظر نہیں آیا‘ عوام نے جب بھی دیکھا یہ لوگ ایک دوسرے کے جانی دشمن نظر آئے لیکن 12 مارچ کو اسمبلی کے تمام اراکین میں اتفاق رائے ہو گیا۔
#قلمکار
#قلمکار
21_اسمبلی میں ایک بل پیش ہوا‘ کوئی بحث ہوئی اور نہ کسی نے اعتراض اٹھایا‘ سپیکر نے بل قائمہ کمیٹی میں بھجوایا‘ کمیٹی نے ایک دن میں منظوری دے دی‘ یہ تیسرے دن اسمبلی میں پیش ہوا اور اسمبلی نے دس منٹ میں بل پاس کر دیا ‘یہ پنجاب اسمبلی کے ارکان‘ ڈپٹی سپیکر‘ سپیکر‘ وزراءاور وزیراعلیٰ
22_کی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کا مقدس ترین بل تھا اور اس بل کے ذریعے وزیراعلیٰ چار لاکھ 25 ہزار‘ سپیکر دو لاکھ60 ہزار‘ ڈپٹی سپیکردو لاکھ 45 ہزار‘ وزراءدو لاکھ 75 ہزار اوراراکین اسمبلی ایک لاکھ 95 ہزار ماہانہ تنخواہ اور مراعات وصول کریں گے۔
#قلمکار
#قلمکار
23_ارکان اسمبلی‘ وزراءاور وزیراعلیٰ کے ڈیلی الاﺅنس‘ ہاﺅس رینٹ‘ یوٹیلٹی الاﺅنس اور مہمانداری الاﺅنس میں بھی دو‘ تین اور چار گنا اضافہ کر دیا گیا‘ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں ارکان‘ وزراءاور وزیراعلیٰ کی تنخواہیں کم تھیں‘ یہ اضافے کے بعد بھی تسلی بخش نہیں ہیں‘
#قلمکار
#قلمکار
24_آج کے دور میں اس آمدنی میں اچھا لائف سٹائل برقرار رکھنا ممکن نہیں لیکن سوال یہ ہے کیا ارکان اسمبلی اور وزراءغریب ہیں؟ کیا یہ صرف تنخواہ پر گزارہ کر رہے ہیں؟ جی نہیں! 99 فیصد ارکان کا روزانہ کا خرچ ان کی ماہانہ تنخواہ سے زیادہ ہے۔
#قلمکار
#قلمکار
25ملک کے غرباءتو رہے دور مڈل کلاس کا کوئی شخص بھی الیکشن کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتا لہٰذا یہ تمام لوگ رئیس ہوتے ہیں لیکن آپ ان رئیس لوگوں کی حرص بھی ملاحظہ کیجئے‘ یہ اپنی مراعات اور تنخواہوں کےلئے چند لمحوں میں اپنے تمام اختلافات بھلا کر اکٹھے ہوں
#قلمکار
#قلمکار
26_‘ بل آیا اور دو دن میں تمام مراحل طے کر کے پاس ہو گیا‘ اس پر اس ماہ سے عمل درآمد بھی شروع ہو جاتا‘ یہ سپیڈ ثابت کرتی ہے ہمارے ارکان اسمبلی اپنے ذاتی ایشوز پر یک جان ہیں لیکن یہ عوامی ایشوز پر منقسم ہیں۔
#قلمکار
#قلمکار
27_یہ لوگ عوام کے ایشوز پر کبھی اکٹھے ہوئے اور نہ ہوں گے‘ کیوں؟کیونکہ عوامی ایشوز میں ان کا کوئی سٹیک شامل نہیں ہوتا چنانچہ یہ ان ایشوز پر اکٹھے ہوتے ہیں اور نہ ہی اسمبلی آتے ہیں‘ میری وزیراعظم عمران خان سے درخواست ہے یہ چند ماہ کےلئے نواب آف کالاباغ بن جائیں‘
#قلمکار
#قلمکار
28_یہ عوامی ایشوز میں ارکان اسمبلی اور بیورو کریسی کو سٹیک ہولڈر بنا دیں‘ یہ اعلان کر دیں سرکاری افسروں اور ارکان اسمبلی کی تنخواہیں مڈل کلاس کے برابر ہوں گی‘ بچے سرکاری سکولوں میں پڑھیں گے‘ یہ سرکاری ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں سے علاج کرائیں گے۔
#قلمکار
#قلمکار
29_پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کریں گے‘ یہ اپنے ہاتھ سے ٹیکس ریٹرنز سمیت تمام فارم پر کریں گے اور تمام یوٹیلٹی بلز بھی خود دیں گے‘ آپ اس کے بعد کھلی آنکھوں سے تمام فارم آسان‘تمام ہسپتال‘ سکول اور ٹرانسپورٹ ٹھیک اور ساری مہنگائی کنٹرول ہوتے دیکھیں گے‘ہمارے پالیسی سازکیونکہ خود اس پالیس