تھریڈ 🎭

“عظیم الشان اور تاریخی روہتاس قلعہ”

پاکستان میں موجود تاریخی قلعے مختلف بادشاہوں نے مختلف ادوار میں تعمیر کیے ان میں سے زیادہ تر قلعے مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث زمانے کی شکست و ریخت کا شکار ہوکر خستہ حال ہوچکے ہیں
یہ وہ مقامات ہیں جو اپنے اپنے دور میں سیاسی جغرافیائی اور جنگی لحاظ سے بہت اہم تھے یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان قلعوں کی باقیات دیکھ کر گزرے وقتوں کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ان ہی قلعوں میں سے ایک جہلم میں واقع روہتاس کا قدیم قلعہ ہے
جس کی بنیاد افغان بادشاہ فرید خان (جو شیر شاہ سوری کے نام سے مشہور ہوا) نے 1542ء میں رکھی پوٹھوہار اور کوہستان نمک کی سرزمین کے وسط میں تعمیر کیے گئے اس قلعے کی تعمیر تقریباً پانچ سال میں مکمل ہوئی اس کے ایک طرف نالہ کس دوسری طرف نالہ گھان
جبکہ تیسری طرف گہری کھائیاں اور گھنا جنگل ہے قلعے کی تعمیر جنگِ کنوج میں مغل بادشاہ ہمایوں کو شکست دینے کے بعد شروع کی گئی تاکہ مزید حملوں سے بچا جا سکے۔ شیر شاہ سوری پوٹھوہار سے خیبر تک اپنی حکومت محفوظ رکھنا چاہتا تھا
روہتاس قلعہ گکھڑوں کی سرکوبی اور ان کے حملوں سے بچنے کے لیے فوجی حکمت عملی کے تحت تعمیر کروایا دراصل گکھڑ مغلوں کو کمک اور بروقت امداد پہنچاتے تھے اور یہ بات شیر شاہ سوری کو کسی طور گوارا نہیں تھی
جب قلعے کی تعمیر کچھ حد تک مکمل ہوئی تو شیر شاہ سوری نے کہا کہ آج میں نے گکھڑوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ہے قلعے کے عین سامنے شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ جرنیلی سڑک (جی ٹی روڈ) گزرتی تھی شیر شاہ سوری کے بعد اس کے بیٹے سلیم شاہ نے اپنے دورِحکومت میں قلعے کی توسیع کروائی
قلعے کی تعمیر میں عام اینٹوں کے بجائے دیوہیکل پتھروں اور چونے کا استعمال کیا گیا۔ یہ بھاری پتھر اونچی دیواروں اور میناروں تک بھی پہنچائے گئے ان بڑے بڑے پتھروں کو بلندیوں پر نصب دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ جدید مشینری جس کام کو انجام دینے میں ناکام ہوجاتی ہے
وہ کام صدیوں پہلے انسانی ہاتھوں نے کیسے سرانجام دیے۔ چار سو ایکڑ پر محیط اس قلعے کی تعمیر میں بیک وقت تین لاکھ مزدوروں نے حصہ لیا جنگل اور پہاڑوں میں بنائےگئے قلعہ روہتاس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کو تعمیر کرنے میں شیر شاہ سوری سے محبت کرنے
والے بزرگان دین نے بھی مزدوروں کے شانہ بشانہ حصہ لیا اور اپنا خون پسینہ بہایا قلعہ کی تعمیر میں اپنی جان قربان کرنے والے بزرگوں کے مقابر قلعے کے کسی نہ کسی دروازے کے ساتھ موجود ہیں جبکہ اندر بھی جگہ جگہ بزرگوں کے مقابر ہیں قلعہ اندرونی طور پر دو حصوں میں تقسیم تھا
جس کے لیے ایک 1750 فٹ طویل دیوار تعمیر کی گئی، جو قلعے کے دفاعی حصے کو عام حصے سے جدا کرتی تھی جنگی حکمت عملی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قلعے کے کُل بارہ دروازے بنائے گئے،جو فن تعمیر کا نادر نمونہ ہیں ہر دروازے کی تعمیر کا ایک مقصد تھا جس کی وجہ سے ان کو بے حد اہمیت حاصل تھی
اس کے صدر دروازے کا نام ہزار خوانی تھا قلعے کا سب سے قابلِ دید عالیشان اور ناقابل شکست حصہ اس کی فصیل ہے، جس پر 68 برج ، 184 برجیاں، 6 ہزار881 کنگرے اور 8 ہزار556 سیڑھیاں بنائی گئی تھیں
فصیل تین منزلوں میں دو یا سہ قطاری تعمیر کی گئی تھی اوراس کے چبوترے جو تیر اندازوں اور توپچیوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے سیڑھیوں کے ذریعے ایک دوسرے سے منسلک تھے کنگروں سے دشمنوں پر پگھلا ہوا سیسہ اور کھولتا ہوا پانی بھی انڈیلا جاتا تھا
جب قلعہ تعمیر ہوا تو یہ اپنی نوعیت کا ایک بڑا قلعہ تھا، تاہم یہ بات حیران کن تھی کہ اتنے بڑے قلعے میں محض چند رہائشی عمارتیں تعمیر کی گئی تھیں جن میں ساٹھ ہزار فوجی قیام کر سکتے تھے یہ قلعہ چونکہ دفاعی حکمت علمی کے تحت بنایا گیا تھا اسی لیے شیر شاہ سوری کے بعد
برسراقتدار آنے والوں نے بھی یہاں اپنے ٹھہرنے کے لیے کسی پرتعیش رہائش گاہ کا انتظام نہیں کیا محلات نہ ہونے کے باعث مغل شہنشاہ آکر خیموں میں رہا کرتے تھے مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے سُسر راجا مان سنگھ (جو اس کی فوج کا جرنیل بھی تھا) نے یہاں رہنے کے لیے ایک حویلی بنوائی تھی
قلعے میں تین باؤلیاں بنوائی گئی تھیں بڑی باؤلی آج بھی موجود ہے جو 270فٹ گہری ہے جس میں اترنے کے لیے 300سیڑھیاں بنائی گئی ہیں کابلی دروازے کے نزدیک ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی تھی، جس کا نام شاہی مسجد ہے جبکہ جنوبی حصے میں مرکزی چٹان پر عیدگاہ بنائی گئی تھی
باؤلی جانتے ہیں کیا ہوتا ہے؟ یہ ایک بڑا سا کنواں ہوتا ہے جس میں پانی کی سطح تک سیڑھیوں کے ذریعے پہنج سکتے ہیں اس میں ارد گرد راہداریوں اور کمرے بنے ہوتے ہیں جو شدید گرمی میں بھی بہت ٹھنڈے رہتے ہیں امیر زادے اور صاحب استطاعت لوگ وہاں اپنی محفلیں سجاتے تھے
یوں تپتی دوپہر ٹھنڈے پانی کے پہلو میں بیٹھ کر گزار دیتے تھے بظاہر قلعہ روہتاس ایک بے ترتیب سا تعمیراتی ڈھانچا معلوم ہوتا ہے مگر شیر شاہ سوری نے اس کی تعمیر میں نقش نگاری اور خوبصورتی کو ملحوظ خاطر رکھا اس کا ثبوت قلعے کے دروازے اور شاہی مسجد میں کی جانے والی میناکاری سے ملتا ہے
ہندوانہ طرز تعمیر کی پہچان سوہل گیٹ سے ہوتی ہے اسی طرح بھربھرے پتھر اور سنگ مر مر کی سلوں پر خط نسخ میں کندہ کیے گئے مختلف مذہبی عبارات والے کتبے خطاطی کے نادر نمونوں میں شمار ہوتے ہیں خواص خوانی دروازے کے اندرونی حصے میں دو سلیں نصب ہیں
جن میں سے ایک پر کلمہ اور دوسری پر مختلف قرآنی آیات کندہ ہیں شیر شاہ سوری کے بیٹے سلیم شاہ نے قلعے کو موسمی اثرات اور حوادثِ زمانہ سے محفوظ رکھنے کے لیے باہر کی آبادی کو قلعہ کے اندر منتقل ہونے کی اجازت دی تھی
اس آبادکاری کے نتیجے میں جو بستی وجود میں آئی وہ اب روہتاس گاؤں کہلاتی ہے مقامی لوگوں نے سطح زمین سے اوسطاً 300 فٹ بلند اس قلعے کے پتھر اکھاڑ کر مکانات بنا لیے ہیں موجودہ دور میں قلعے کے چند دروازوں راجا مان سنگھ کے محل اور جنوب مغربی
سمت چار منزلہ عمارت میں واقع بڑے پھانسی گھاٹ کے سوا بیش تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے اپنے وقت کا یہ مضبوط ترین قلعہ آج بکھری ہوئی اینٹوں کی مانند موجود ہے
قلعہ روہتاس اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہ برائے تعلیم سائنس اور ثقافت(یونیسکو) کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے

بشکریہ
جنگ
You can follow @restiswell.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.