اس فضل الرحمان کو ملازم صحافی بہت کوئی سیاست کا افلاطون بنا کر پیش کرتے ہیں
کہتا ہے، ہم نے ضمنی اور سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، ہماری جنگ حکومت کے ساتھ ہے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں، لیکن رکیے کچھ ماہ پہلے موصوف کیا کہتے تھے
کہتا ہے، ہم نے ضمنی اور سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، ہماری جنگ حکومت کے ساتھ ہے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں، لیکن رکیے کچھ ماہ پہلے موصوف کیا کہتے تھے
ان اسمبلیوں میں جو اس وقت پاکستان میں موجود ہیں ان اسمبلیوں سے اگر سینیٹ کے اگلے مرحلے کے لیے الیکشن ہوتے ہیں تو ظاہر ہے وہ ایک جعلی قسم کے الیکشن ہوں گے، لیکن اوپر والی ٹویٹ میں کیا کہا
دوبارہ سنیں


دوبارہ سنیں 11 پارٹیوں کے الائنس پی ڈی ایم کے سربراہ 73 کے آئین کے روح رواں کچھ ماہ پہلے تک کیا کہتے رہے

ایک بار پھر غور سے سنیں 20 ستمبر کو محترم جناب اعلی حضرت اے پی سی اور پی ڈی ایم کے خطاب کے وقت کیا فرماتے تھے
آج ہی فیصلہ کریں ہم اسمبلیوں سے مستعفی ہوں گے
آج ہی فیصلہ کریں ہم اسمبلیوں سے مستعفی ہوں گے

حکومت 31 جنوری تک مستعفی ہو جائے نہیں تو ہم فیصلہ کریں گے کہ لانگ مارچ اسلام آباد کی طرف کیا جائے یا پنڈی کی طرف
اور آج جناب فرما رہے تھے ہم نے ضمنی اور سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ہماری لڑائی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں، ویسے آج 31 جنوری ہے
اور آج جناب فرما رہے تھے ہم نے ضمنی اور سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور ہماری لڑائی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں، ویسے آج 31 جنوری ہے

اس موقع پر اس محترمہ مریم نواز کی بھی سننی چاہیئے ہماری لڑائی عمران خان سے نہیں ہے

عمران خان صاحب ہمارا مقابلہ آپ سے ہے ہی نہیں ہمارا مقابلہ آپ کے لانے والوں کے ساتھ ہے۔ مجرم اشتہاری نواز شریف 
اب آخری ویڈیو دیکھیں نیچے والی ٹویٹ میں

اب آخری ویڈیو دیکھیں نیچے والی ٹویٹ میں
اب آپ کلوز اپ کے ساتھ فضل الرحمان کو سنیں ان کے درد کو سمجھیں بغیر ہنسے اور پھر کچھ ماہ پہلے کی بڑھکیں اور تقاریر سنیں ان صاحب کے فوج کے خلاف جب محترم فرماتے تھے کہ ہم یہ فیصلہ کریں گے 31 جنوری کو کہ لانگ مارچ اسلام آباد لے کر جانا ہے یا پنڈی جی ایچ کیو کے باہر