آبادی بڑھنے کے ساتھ پہاڑی علاقوں میں غذائی قلت یا غذا کی کمی ایک سنگین مسلہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی ابادی اور ضروریات زندگی بڑھنے کیوجہ سے پہاڑی لوگ روایتی طرز زندگی کو ترک کر رہے ہیں جس می باغبانی اور مال مویشی پالنا اور ان سے غذائی طور پر استفادہ کرنا اہم جوز تھا۔
اکثر پہاڑی علاقوں میں حکومت کی طرف سے پہلے ہی زراعت اور لائوسٹاک کے محکمے ہیں جن کے اہلکار فارغ بیٹھے رہتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں بدلتے ہوئے حالات کے مطابق حکومتی سطح پر ایک جامع پروگرام کی ضرورت ہے جس میں موجودہ عملے اور انفراسٹرکچر کو ہی بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔
پہاڑی علاقوں سے تعلق رکھنے والے اس صورتحال سے بخوبی واقف ہوں گے۔ چراگاہیں خشک ہونے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی بے روزگاری کیوجہ سے چراہگاہو سے جانوروں کی چوری بھی ایک المیہ ہے۔ شہروں سے چارہ خریدنا اور پھر بھاری کرایہ دے کر پہاڑوں میں پہنچانا بہت مہنگا پڑھتا ہے۔ نتیجتان لوگوں نے
گھر پھر مال مویشی پالنا ہی ترک کر دیا ہے۔آجکل حکومت غریب لوگوں میں مویشیاں تقسیم کر رہی ہے جو ایک احسن اقدام ہے۔اس پروگرام میں مزید بہتری لائی جاسکتی ہے جیسا کہ سرکاری سطح ہر چھوٹے سے گاوں میں مال مویشی نگہبان کا ہونا جس کو بنیادی تنخواہ حکومت دے باقی فی جانور لوگوں سے اکٹھا کرے
پہلے ہر گاوں میں ایک خانہ بدوش(شپونکے) ہوتا تھا جو اپنے درجنوں مویشیوں سمیت باقی گاوں کے جانور بھی چرانے لے جایا کرتا تھا، ہر صبح پہاڑ کی طرف جانوروں کی ایک لمبی لائن چلتی تھی۔ آجکل یہ منظر شائد ہی کسی پہاڑی گاوں میں دیکھنے کو ملتی ہو۔
بلوچستان میں چرواہے کا تصور آج بھی زندہ ہے۔۔۔ 😍😍😍
بانسری، ہاتھ میں پانی کا چھوٹا مٹکا جس کے گرد کپڑا لپٹا ہوتا تھا، ایک چھڑی اور پہاڑوں میں درجنوں غارنما مسکن۔۔۔ اپنی ہی دنیا کا بادشاہ
قبائلی علاقوں میں جہاں پر درختوں کی کٹائی پر پابندی مقصود ہو تو وہاں پر کچھ مشران مل کر ایک کمیٹی تشکیل دیتے ہیں جو متفقہ طور پر ایک جرمانہ مقرر کر دیتے ہیں اور پاپندی(ناغے) کا اعلان کیا جاتا ہے۔پہاڑ کا ایک نگہبان مقرر ہوتا ہے جو خلاف ورزی کی نشاندہی کرتا ہے۔
جرمانے کی مد
میں جمع رقم کمیٹی آپس میں تقسیم کرتی ہے۔ یہ عمل/روایت بھی وقت کے ساتھ ساتھ تقریبان ختم ہوگیا۔
ایسی طرح زیتون کے درخت کو مقدس مانا جاتا ہے اور حتی الوسع کوشش ہوتی ہے کہ زیتون کے درخت کو نہ کاٹا جائے۔ قبائلی علاقوں میں زیتون کے جنگلات ہیں جن کی پیوند کاری کی جاسکتی ہے۔
ایسی طرح پہاڑی علاقوں میں جگہ جگہ چشمے بہتے ہیں۔ لیکن ان چشموں سے مچھلی پکڑنے کے لئے کرنٹ یا بارود کا استعمال عام ہوگیا ہے جس کیوجہ سے مچھلی کی نسل ہی ختم ہوگئ۔
اگر مقامی لوگوں کو مچھلی فارمنگ کی تربیت اور نمونے کے طور پر کچھ فارمز بنا کر دیئے جائیں
تو مستقبل میں مچھلی کی پیداوار لوگوں کی غذائی قلت دور کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔
این جی اوز/سوشل سیکٹر اس کے شورٹ اور لونگ ٹرم پروگرام سپانسر کرتی ہے لیکن جہاں یہ علاقے دہائیوں سے حکومتی عدم توجہ سے پسماندہ رہ گئے تو دوسری طرف رسائی اور گائیڈنس نہ ہونے کیوجہ سے این جی اوز نے بھی پہلے کبھی دور دراز پہاڑی علاقوں میں کام نہیں کیا۔ رہی سہی کثر امن وامان کی ابتر
صورتحال نے پوری کی۔ سابقہ فاٹا کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ دہائی سے زیادہ جنگ نے مقامی معیشت تباہ کردی ۔عملی کام میں آج بھی یہ علاقے حکومتی ترجیحات میں نہیں جبکہ این جی اوز کو سیکیورٹی رسک تصور کرکے این او سی نہیں دیا جاتا۔ کاش کسی کو ان کی حالت زار پر رحم ائے!!!
فاٹا میں حالات ان اعداد سے بھی زیادہ گھمبیر ہیں۔ پچھلے دہائی میں پورے فاٹا میں لوگ بے گھر ہوئے، حکومتی سطح پر امداد نہ ہونے کے برابر رہی۔ جو کچھ پاس تھا وہ دوسری جگہ پر کرایہ یا دوسری جگہ اپنے قبیلے کے زمین پر گھر میں خرچ ہوا اور ساتھ اپنے رشتےداروں وغیرہ سے لاکھوں قرضے لئے گئے۔
آج بھی لاکھوں لوگ بے گھر ہیں اور جن کی واپسی ہوچکی وہ اپنے تباہشدہ گھروں کو بنانے میں لگے ہیں۔ پہلے تباہشدہ گھروں کے سروے وغیرہ نہیں ہوتے، ہوجائے تو پیسے نہیں ملتے اور جو پیسے ملتے ہیں ان سے تباہشدہ مکانوں کے ملبے بھی صاف نہیں ہوتے۔ تباہ شدہ گھر اور تباہشدہ معیشت میں صحت، خوراک
اور تعلیم بس حسرتیں ہی رہ جاتیں ہیں۔ فاٹا میں ہنگامی بنیادوں پر حکومت توجہ کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی این جی اوز کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ فاٹا میں این جی اوز کو این او سی یا ملتی نہیں یا سیکیورٹی کے تناظر میں این او سی حصولی کا عمل انتہائی مشکل بنایا گیا ہے۔
You can follow @Tirahwal21.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.