Elegy to the city of #Quetta by #Pashtun tea stall owner Saleh Dotani who is witness to the merciless killings of #Hazaras, who have faced cleansing from the public space, markets, colleges & universities, and are besieged in Marriabad and Hazara Town

کوئٹہ کا مرثیہ
#Thread
۱۹۹۶ میں پشاور ایگریکلچر یونیورسٹی سے آ کر مرحوم والد کے ساتھ سرکلر روڈ نزد باچا خان چوک میں کاروبار سے جڑ گیا .. چائے کی پتی کا بزنس تھا اور اس زمانے میں چائے کے کاروبار سے اکثریت ہزارہ برادری کے لوگ وابستہ تھے سو اس واسطے بہت زیادہ تعلق ہزارہ برادری کے ساتھ ہوا کرتا تھا
صبح آٹھ بجے سے بعد از مغرب آن ڈیوٹی رہتا .. صبح پہلی آدھ گھنٹے کی نشست ساتھ والے عاصمی ٹی کمپنی کے دوست حامد رضا (مرحوم) کے ساتھ ہوتی انکے مشرق اخبار ( جبکہ ہماری دکان پہ جنگ اخبار آتا تھا ) کے مطالعے کے ساتھ چائے نوشی و حالات حاظرہ پر گفتگو ہوتی
دس بجے آغا عباس کی آغا ٹی کمپنی سے سعادت علی آتے اور میرے والد مرحوم کو کہتے کہ حاجی صاحب آپکا ٹیلیفون ہے ان دنوں تک موبائل فون عام نہیں ہوا تھا ( یہ چائے پلانے کا کوڈ ہوتا) گھنٹہ بھر وہاں انکی مجلس جمی رہتی
گیارہ بجے کھانے پینے کے انتہائی شوقین سید غلام حسین شاہ (جن کو ہمارے زیارت کے مولوی محمد جعفر صاحب ہمیشہ کہتے “ او رضوی خانہ خرابہ، خوردن برائے زیستن نہ کی زیستن برائے خوردن “ ) اور آغا لعل شاہ کی آمد اور انکے لئے سیمپل والی خصوصی چائے اور صرف جمعہ کے دن دودھ خطائی کا اہتمام ہوتا
پڑوس میں صمد ٹی کمپنی کے صمد علی ہوتے، اپنے بچوں کے بارے میں ہمیشہ فکر مند اور پیٹ کاٹ کراپنے تمام بچوں کو بہترین تعلیم دلوانے والے (بالآخر انکو اپنی محنت کا پھل مل گیا اور ایک رات جیو ٹی وی پر انکے بیٹے کرار حسین کا ذکر غالبا ان الفاظ سے ہوا “ علمدار روڈ سے ہارورڈ یونیورسٹی تک"
پھر نادر کیپ والے مصدق علی صاحب ( آجکل شاز و نادر کہیں ملاقات ہو جائے تو آنسوؤں بھری آنکھوں کے ساتھ گلے ملکر خوشگوار ماضی کو یاد کرتے ہیں) آگے چل کر لنگوٹیا یار آصف علی علمدار ٹی والے سیٹ پر براجمان ہوتے
روزانہ انکے ساتھ چائے اور رمضان کے مہینے میں ایک دو دن انکی دکان پر مغرب کو ان سے دس منٹ پہلے گرما گرم پکوڑوں اور سلیمانی چائے سے افطار کرتا یہاں کبھی کبھار شیعہ سنی اختلاف پیدا ہوجاتا حاجی آصف کہتا کہ تم ۱۰ منٹ پہلے افطار کرنے کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہو اور اچھی چیزیں کھا جاتے ہو
آگے ہر فن مولا سید مہدی شاہ عرف “ملا” ہوا کرتے جنکے بیٹے احمد شاہ کی شادی پر جب میں اپنے پڑوسی نظام ترین کے ساتھ طوغی روڈ پر انکے گھر پہنچا تو نشست گاہ میں تمام ہزارہ و شیعہ سید برادری کے لوگ بیٹھے تھے بیٹھ کر پلیٹ میں سالن ڈالنے لگا
تو ایک جبہ و پگڑی پوش رعب دار آخوند نے نسبتا ٹھنڈا سالن ڈالنے سے منع کرتے ہوئے خدمت گاروں کو با آواز بلند “ برائے مہماناں گرم سالن و گوشت سیاہ زوود بیار “ کا حکم جاری کیا

اگلی دکان شریف ترین اور ہر وقت مسکراتے علی محمد ہزارہ کی میزان ٹی ہوا کرتی تھی
باچا خان چوک پر شام کو دودھ پتی کے ساتھ امپیرئیل بیکری کے مکھن والے نمکین بسکٹ اور جس دن سیل زیادہ ہوتی تو گرم گرم قیمے والے پیٹیز کھلانے والے فدا حسین کی حسینی ٹی کمپنی ہوا کرتی
آگے محسن ہزارہ کی صاحبزادہ ٹی اور آگے چل کر اس وقت کے صدر کوئٹہ ٹی ایسوسی ایشن اور انتہائی متحرک شخصیت اور عزیز دوست سیٹھ عزیز حسینی(جو زیارت میں سیب کے درخت پر پھول لگنے سے پہلے ہی فون کرتے اور کہتے : یارہ زما سیب چیری دی ؟) کا حسینی ٹریڈرز ہوا کرتا
ہر دو چار دن بعد حاضری ہوتی ... اور قندھاری بازار میں ہی حاجی محمد علی موسی کی بہت پرانی اور مشہور سعادت ٹی کمپنی تھی

مذکورہ تمام افراد شیعہ برادری زیادہ تر ہزارہ اور کچھ سید تھے .. کاروبار زندگی چل رہا تھا ایک دوسرے کےغم ،خوشی میں شریک پکنک اور دعوتوں کا سلسلہ چلتا
کہ بد بختانہ دہشت گردی کی چنگاریاں اڑنے اور شعلوں میں بدلنے لگی ہزارہ برادری کو خاص ٹارگٹ کیا جانے لگا، انکے لئے حالات دگرگوں ہونے لگے بے چینی اور اضطراب بڑھنے لگا، ابتدائی واقعے میں پولیس ٹریننگ سکول کے ہزارہ کیڈٹس کو دھشتگردی کا نشانہ بنایا گیا جس میں آغا لعل شاہ کے اکلوتے بیٹے
حسن کو گولیاں لگی ... حالات اس نہج پر پہنچے کہ سب کو جان کی فکر ہونے لگی، حامد رضا آخری دنوں میں مجھے کہتا یہ کیا زندگی ہوگئ ہر صبح والدہ محترمہ قرآن پاک کے زیر سائے گھر سے رخصت کرتی ہیں اور جان بچانے کی فکر میں دکان بیچ کر یورپ نکلنے کی کوشش کرتے ہوئے ایران ترکی بارڈر پر
برف پوش پہاڑوں میں اکلوتا بیٹا چھوڑ کر جان کی بازی ہار گیا

صمد علی حالت خوف میں کاروبار چھوڑ کر جان ہتھیلی پر رکھ کر کشتی میں سوار آسٹریلیا نکل گیا
آغا سید عباس کو پیرانہ سالی میں اکلوتے بیٹے رضا کی فکر نے کاروبار چھوڑنے پر مجبور کیا آجکل کینیڈا میں ہیں
اورسعادت علی بھی بصد مشکل ملک سے نکل گئے
آصف علی علمدار ٹی کمپنی چھوڑ کر گلستان ٹاؤن میں محصور ہوگیا
علی محمد چلتا پھرتا کاروبار بہ حالت مجبوری اپنے شاگرد جلیل ہزارہ کے حوالے کرکے علمدار روڈ کے قفس میں مقید ہوگیا بعد ازاں جلیل ہزارہ کے نوجوان بھتیجے نعمت اور احسان ٹی کمپنی کے...
محمد علی ہزارہ کو دن دھاڑے اپنی دکانوں میں گولیوں سے بھون دیا گیا
فدا حسینی دکان نذر آتش ہونے اور بہت عرصہ ٹھوکریں کھانے کے بعد آجکل کینیڈا میں ہے
سیٹھ عزیز حسینی کاروبار ، صدارت و تعلقات چھوڑ کر عازم کینیڈا ہوا
ناصر ٹی کمپنی کے نثار علی ناصر انگلینڈ اور محمد علی آسٹریلیا چلے گئے
محمد حسین ہزارہ 75 سال کی عمر میں قندھاری بازار میں دو دفعہ قاتلانہ حملے میں زخمی ہوکر کاروبار چھوڑ گیا
سعادت ٹی کمپنی کے حاجی محمد علی موسی کے اکلوتے بیٹے کو کوئٹہ سے کراچی جاتے ہوئے گاڑی سے اتار کر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا
کوئٹہ کے مشہور و معروف احمد اسٹور والے حاجی احمد کا
اسٹور لوٹنے نذرآتش کرنے اور پھر اغواء کرنے کے بعد پرنس روڈ پر واقع انکا اسٹور بند کرنے پر مجبور کیا گیا
العباس اسٹور کے مالک کو اسٹور سے نکلتے وقت اکلوتے بیٹے سمیت گولیوں سے چھلنی کیا گیا
آلقائم والے آغا علی نقی کے جواں سال بیٹے یوسف کو عید کے دن خودکش دھماکے میں نشانہ بنایا گیا
You can follow @AliArqam.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.