ھم لوگوں کوکم ازکم اپنی ملکی تاریخ کادرست علم ضرور ہونا چاہئیے۔
بھٹوصاحب کےزیرِعتاب آنےاور زندگی سےہاتھ دھونےکی ایک وجہ یہ ایٹمی پروگرام بھی تھا۔ آج ایٹمی پروگرام کی تاریخ پر کچھ بات ہوجائے۔
میرےپیارےبھائی غیاث الدین ایٹمی قوت کےحصول کاسہراجن کےسرباندھ رہے ہیں۔انھوں نےتو+1/22 https://twitter.com/ghias49/status/1343923951832080384
بھٹوصاحب کےزیرِعتاب آنےاور زندگی سےہاتھ دھونےکی ایک وجہ یہ ایٹمی پروگرام بھی تھا۔ آج ایٹمی پروگرام کی تاریخ پر کچھ بات ہوجائے۔
میرےپیارےبھائی غیاث الدین ایٹمی قوت کےحصول کاسہراجن کےسرباندھ رہے ہیں۔انھوں نےتو+1/22 https://twitter.com/ghias49/status/1343923951832080384
امریکہ سےایٹم برائےامن (ایٹم فار پیس)کامعاہدے کرلیاتھا۔ایٹم فار پیس بلکل اسی طرح کامعاہدہ تھاجیسا ایٹمی اسلحے کے پھیلاؤ کوروکنےکامعاہدہC.T.B.T ہے۔یہ اکتوبر1954 کی بات ہے۔
"پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے وہائٹ ہاوس میں امریکی صدرآیزن ہاورسےملاقات کی تھی اورپاکستان +2/22
"پاکستان کے وزیر اعظم محمد علی بوگرہ نے وہائٹ ہاوس میں امریکی صدرآیزن ہاورسےملاقات کی تھی اورپاکستان +2/22
نےامریکہ کےایٹم برائےامن (ایٹم فارپیس) کےمنصوبہ میں شمولیت کا اعلان کیاتھا۔یہ پاکستان کی طرف سےمعاہدہ تھاکہ وہ جوہری توانائی،اسلحہ کی تیاری کےلئے
استعمال نہیں کرےگا۔"
(بی۔بی سی اردو)
اسی سال پاکستان امریکہ کے دو فوجی معاہدوں ”سینٹو” اور ”سیٹو” میں بھی شامل ہوا تھااور۔۔۔+3/22
استعمال نہیں کرےگا۔"
(بی۔بی سی اردو)
اسی سال پاکستان امریکہ کے دو فوجی معاہدوں ”سینٹو” اور ”سیٹو” میں بھی شامل ہوا تھااور۔۔۔+3/22
امریکہ نےبھاری فوجی اوراقتصادی امدادکےعوض پاکستان کی سرزمین پر فوجی اڈےقائم کئےتھے۔اسےآپ پاکستان کی امریکہ غلامی کاآغازکہہ سکتے ہیں۔
1960کی دہائی میں یہ خبریں
تھیں کہ انڈیا نےجوہری تجربات شروع کردئیے ہیں۔مگرپاکستان کی قیادت(ایوب خان) نےجوہری اسلحہ کےمیدان میں قدم رکھنے+4/22
1960کی دہائی میں یہ خبریں
تھیں کہ انڈیا نےجوہری تجربات شروع کردئیے ہیں۔مگرپاکستان کی قیادت(ایوب خان) نےجوہری اسلحہ کےمیدان میں قدم رکھنے+4/22
سےصاف انکارکردیاتھا۔ذوالفقار علی بھٹو نے1963میں کابینہ میں یہ تجویزپیش کی تھی کہ
پاکستان کوجوہری اسلحہ کی تیاری کےلئےپروگرام شروع کرنا چاہئے،لیکن صدر ایوب خان اوران کےامریکہ نواز وزیر خزانہ محمد شعیب اوردوسرےوزیروں نےان کی یہ تجویزیکسر مستردکردی اور واضح کیاکہ پاکستان۔۔+5/22
پاکستان کوجوہری اسلحہ کی تیاری کےلئےپروگرام شروع کرنا چاہئے،لیکن صدر ایوب خان اوران کےامریکہ نواز وزیر خزانہ محمد شعیب اوردوسرےوزیروں نےان کی یہ تجویزیکسر مستردکردی اور واضح کیاکہ پاکستان۔۔+5/22
جوہری اسلحہ کی صلاحیت حاصل نہیں کرےگا۔اسی طرح 1968میں جب صدرایوب خان فرانس کےدورےپرگئےتوفرانسسی صدرچارلس ڈی گال نےپاکستان میں جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پیش کش کی تھی لیکن ایوب خان نےیہ پیشکش ٹھکرادی تھی۔یہ ذوالفقارعلی بھٹوہی تھےجو1971میں بنگلہ دیش کی جنگ کےنتیجے+6/22
میں مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کے بعد برسراقتدارآئےاورانھوں نے ہی پاکستان کوجوہری قوت بنانے
کامنصوبہ شروع کیااس سلسلے میں بھٹوصاحب نےایران،ترکی،
مرکش،الجزائر،تیونس،لیبیا،مصر
اورشام کےہنگامی دورےکئے۔تاکہ مسلم ممالک سےمضبوط تعلقات قائم کرنےکےساتھ ساتھ پاکستان کےجوہری پروگرام+7/22
کامنصوبہ شروع کیااس سلسلے میں بھٹوصاحب نےایران،ترکی،
مرکش،الجزائر،تیونس،لیبیا،مصر
اورشام کےہنگامی دورےکئے۔تاکہ مسلم ممالک سےمضبوط تعلقات قائم کرنےکےساتھ ساتھ پاکستان کےجوہری پروگرام+7/22
کےلئےان مسلم ملکوں کی مالی مددحاصل کی جائے۔ان دوروں کے بعدانہوں نے 1973میں پاکستان کےجوہری اسلحے کےپروگرام کا باقاعدہ آغاز کیااور ہالینڈ سے ڈاکٹرعبد القدیرخان کوپاکستان بلابھیجا۔بھٹو صاحب نے پاکستان کےجوہری پروگرام کےلئیے فرانسسی حکومت کوجوہری ری پراسنگ پلانٹ کی تعمیرکے+8/22
لئے فرانسسی حکومت کی جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پرانی پیشکش کی تجدیدکےلئے
آمادہ کیا۔بھٹوجوہری پروگرام کے سلسلے میں بہت زیادہ پرجوش تھےوہ ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بناناچاہتےتھے۔تاکہ سقوط ڈھاکہ جیسا المیہ دوبارہ جنم نہ لےسکے۔بلکہ یوں کہیں توغلط نہ ہوگاکہ وہ اپنی فوج+9/22
آمادہ کیا۔بھٹوجوہری پروگرام کے سلسلے میں بہت زیادہ پرجوش تھےوہ ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بناناچاہتےتھے۔تاکہ سقوط ڈھاکہ جیسا المیہ دوبارہ جنم نہ لےسکے۔بلکہ یوں کہیں توغلط نہ ہوگاکہ وہ اپنی فوج+9/22
کےزور و بازو کامشاہدہ بنگلہ دیش دوران کرچکے تھے۔چنانچہ بھٹوصاحب نےجوہری صلاحیت کاپروگرام شروع کیا۔پاکستانی سائنس دانوں نےکہوٹہ کی تجربہ گاہ میں 1974میں یوینیم کی افزودگی کاکام شروع کردیا۔اِن ساری سرگرمیوں کوامریکہ بہادر نے پسند نہیں کیا۔اور اس زمانے کے امریکی وزیر خارجہ+10/22
کیسنجرنےتوبھٹوصاحب کوکھلم کھلا دھمکی دی تھی کہ اگر بھٹوصاحب نے"ایٹمی ری پراسنگ پلانٹ کےمنصوبے پراصرارکیاتووہ نہیں رہیں گے" اور پھرآخر کار1977میں بھٹوصاحب سےنہ صرف اقتدارچھین لیاگیا بلکہ 1979میں سولی پربھی چڑھا
دئےگئے۔
فوجی حکمرانوں کاحوصلہ تواس قدرتھاکہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان+11/22
دئےگئے۔
فوجی حکمرانوں کاحوصلہ تواس قدرتھاکہ ڈاکٹرعبدالقدیر خان+11/22
کےمطابق پاکستان کےجوہری سائنس دانوں نے1984میں ہی جوہری بم تیارکرنےکی صلاحیت حاصل کرلی تھی اور انہوں نے جنرل ضیاالحق سےکہاتھاکہ وہ کھلم کھلاپاکستان کی طرف سے جوہری بم کی تیاری کااعلان کر دیں لیکن وہ راضی نہ ہوئے۔آخرکار مئی1998میں جب بھارت نے جوہری تجربات کئےتوپاکستان کے+12/22
منتخب عوامی وزیراعظم میاں نوازشریف نےامریکہ سمیت تمام دنیاکی شدید مخالفت کےباوجود
ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو اعلانیہ ایٹمی طاقت بنا دیا۔
آپ شاید جوہری توانائی کے کمیشن کی بات کررہےاس وقت ڈاکٹرعبدالسلام صدر ایوب خان کے سائنسی مشیرتھے۔وہ صدر ایوب خان کےہمراہ سائنسی مشیر+13/22
ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو اعلانیہ ایٹمی طاقت بنا دیا۔
آپ شاید جوہری توانائی کے کمیشن کی بات کررہےاس وقت ڈاکٹرعبدالسلام صدر ایوب خان کے سائنسی مشیرتھے۔وہ صدر ایوب خان کےہمراہ سائنسی مشیر+13/22
کی حثیت سے1958میں چین بھی گئے تھے۔لیکن یاد رکھیں کہ صدرایوب خاں کوجوہری ہتھیاروں میں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔اور وہ امریکی وفادار کےطور پر امریکی معاہدےایٹم فار پیس کی پابندی کر رہے تھے۔ مشرقی پا کستان کی علیحدگی کےبعد حالات میں تبدیلی آئی اور صدر پاکستان ذوالفقار علی بھٹو+14/22
نے 20 جنوری 1972کوملتان میں پاکستانی سائنسدانوں کی میٹنگ کا اہتمام کیا۔بھٹو صاحب نےان سائنسدانوں کوتلقین کی کہ وہ ایٹم بم بنائیں،اس کےبعد بھٹو صاحب نےڈاکٹرعبدالسلام کو 1972میں چین بھیجاتاکہ جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں چین کا تعاون حاصل کیاجاسکے۔+15/22
دو چینی سائنسدانوں جنگ ہان سنJinghan Sun اور ایگزآو ڈانگ ینXiaodong Yin نے اپنے مقالے"عبد السلام اینڈ چائنا" جو کہ ان اجلاسوں کی کارروائی کی رپورٹیں ہیں جو چائینز اکیڈیمی آف سا ئنسز میں منعقد ہوئی تھیں۔Sun۔ Yinکی رپورٹ کے صفحہ 120کےمطابق "ڈاکٹر سلام نے اپنے اس وزٹ کو +16/22
غیرمعمولی وزٹ not an ordinary visit قراردیاتھا۔وزیر اعظم چاؤسے 5ستمبر 1972 کی شام کوہونےوالی میٹنگ میں سلام نےنیو کلئیرتعاون کی درخواست پیش کی۔وزیر اعظم چاؤ کاجواب مدبرانہ تھا:”چائینیز اکیڈیمی آف سائنسزنےاس پر بڑی احتیاط سےغور و فکر کرناہےاور اس کےمطابق تیاریاں کرنی ہیں۔+17/22
ہم تمہارےیہاں تجربےاور ٹیکنالوجی کےلئےچند افرادبھیج دیں گے“۔
ایک اورمضمون جوامریکہ کی کارنیل یونیورسٹی کےڈاکٹر ینگ ینگ چینگ Dr۔Yangyang Cheng نےتحریرکیاہےاس کے مطابق ڈاکٹرعبدالسلام کےچین وزٹ کےدو مہینےبعدایک چائنیز ٹیم جس کےسربراہجیانگ شین جیJiang Shenjie تھااس ٹیم نے۔۔۔+18/22
ایک اورمضمون جوامریکہ کی کارنیل یونیورسٹی کےڈاکٹر ینگ ینگ چینگ Dr۔Yangyang Cheng نےتحریرکیاہےاس کے مطابق ڈاکٹرعبدالسلام کےچین وزٹ کےدو مہینےبعدایک چائنیز ٹیم جس کےسربراہجیانگ شین جیJiang Shenjie تھااس ٹیم نے۔۔۔+18/22
کانوپKANUPP(کراچی نیوکلئیر پاور پلانٹ)جوکینیڈین حکومت نےتحفہ میں دیاتھا،کی افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔جیانگ پیشہ کےلحاظ سےکیمسٹ اورنیوکلئیرانجنئیرتھا۔اس نےچین کےجوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں بنیادی رول آداکیا تھا۔نیزوہ بیجنگ کےاٹامک انرجی انسٹی ٹیوٹ کاڈپٹی ڈائریکٹرتھا۔ +19/22
ڈاکٹرعبدالسلام پاکستان کی ایٹمی قوت بننےکےسفرمیں شریک تھے۔لیکن جب1974کوبھٹو حکومت نے۔ان کی احمدیہ کمیونٹی کوغیرمسلم قراردیاتو یہ بات ان کےلئیےبہت زیادہ صدمے کاباعث بنی۔1974میں ڈاکٹرسلام نےاحتجاجاًاستعفیٰ دےدیا۔گرچہ ڈاکٹرصاحب اصولی طورپر نیوکلئیر ہتھیاروں کےخلاف تھے۔+20/22
لیکن پاکستان سےاپنی نظریاتی اورجزباتی وابستگی کےباعث انھوں نےپاکستان کاایٹمی قوت بنناناگزیر سمجھتےہوئےپورے اخلاص سےاس کام میں اپناحصہ ڈالا۔استعفیٰ دینےسےقبل ہی ڈاکٹر سلام نےمین ہیٹن پراجکٹ کی طرزپرایک مکمل لایحہ عمل منیر احمد، ریاض الدین وغیرہ کو دے دیاتھا۔1974کےبعدبھی۔+21/22
ڈاکٹر عبدالسلام نےپاکستان کے جوہری سائنسدانوں سے مسلسل رابطہ رکھا۔
ہمارے نظریاتی مذہبی اختلاف اپنی جگہ مگر ملک کے لئیے جن شخصیات نے پورے خلوص سے خدمات انجام دیں ہیں ہمیں اپنے ان محسنوں کواس کاکریڈیٹ اور احترام ضرور دینا چاہئیے۔ 22/22
ہمارے نظریاتی مذہبی اختلاف اپنی جگہ مگر ملک کے لئیے جن شخصیات نے پورے خلوص سے خدمات انجام دیں ہیں ہمیں اپنے ان محسنوں کواس کاکریڈیٹ اور احترام ضرور دینا چاہئیے۔ 22/22