سانحہ ماڈل ٹاون کیس

چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ قاسم خان کی سربراہی میں لاھور ہائی کورٹ کا سات رکنی بنچ جس میں جسٹس امیر بھٹی، جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس اسجد جاوید گھرال، جسٹس فاروق حیدر، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس ملک شہزاد شامل ہیں کل 7 دسمبر کو (298 دن بعد) اُس ماڈل ٹاون کیس کی
1/15
پہلی سماعت کرےگا جس کا فیصلہ کرنے کیلیے سپریم کورٹ آف پاکستان نے لاھور ہائی کورٹ کو 13 فروری 2020 کو 90 دن میں فیصلہ کرنےکا حکم دیا تھا

تفصیلات کے مطابق سانحہ ماڈل ٹاون کی ایک مقتولہ کی بیٹی بسمہ امجد نے 6 اکتوبر 2018 کو چیف جسٹس ثاقب نثار سے درخواست
2/15 https://www.dawnnews.tv/news/1120329 
کی تھی کہ سپریم کورٹ سانحہ ماڈل ٹاون کی شفاف تحقیقات کیلیے ایک نئی JIT تشکیل دے کیونکہ پہلے سے بنی ہوئی JIT کی تحقیقات اور اس کی رپورٹ درست نہیں ہے جس پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے از خود نوٹس لیتے ہوئے 19 نومبر 2018 کو سماعت کی اور نئی JIT تشکیل دینے نہ دینے کا فیصلہ کرنے کیلیے
3/15
سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بنچ تشکیل دے دیا

اس کے بعد حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ کو نئی JIT بنانے کی ازخود یقین دہانی کرواتے ہوئے 3 جنوری 2019 کو IG موٹرویز اے ڈی خواجہ کی سربراہی میں نئی JIT تشکیل دے دی جس میں #ISI کے نمائندے لیفٹیننٹ کرنل محمد عتیق الزمان، #MI کے نمائندے
4/15
لیفٹیننٹ کرنل عرفان مرزا اور #IB کے نمائندے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل محمد احمد کمال کے علاوہ DIG ہیڈ کوارٹرز پولیس گلگت بلتستان قمر رضا جسقانی بھی شامل تھے

حکومت پنجاب نے نئی JIT کی تشکیل کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تو چیف جسٹس ثاقب نثار نے بسمہ امجد کی درخواست
5/15 https://dailypakistan.com.pk/03-Jan-2019/906015
نمٹا دی اور نئی JIT نے فوری طور پر اپنے کام کا آغاز کر دیا

20 مارچ 2019 تک یہ نئی JIT سانحہ ماڈل ٹاون کیس میں نامزد تمام ملزمان سے تحقیقات کر کے ان کے بیانات قلمبند کر چکی تھی، 20 مارچ 2019 کو JIT نے کوٹ لکھپت جیل میں جا کے سانحہ ماڈل ٹاون کے آخری ملزم نوازشریف سے بھی
6/15
تحقیقات کیں اور اس کا بیان قلمبند کر لیا جس کے بعد JIT کا کام تقریباً مکمل ہو گیا تھا اور اب صرف رپورٹ مرتب کرنے کا کام باقی تھا

لیکن پھر یوں ہوا کہ نوازشریف سے تحقیقات ہونے کے ٹھیک اگلے ہی روز یعنی 21 مارچ 2019 کو ایک پولیس انسپیکٹر رضوان اور کانسٹیبل خرم رفیق اپنے وکلاء
7/15
کے ذریعے لاھور ہائی کورٹ میں پیش ہو گئے اور انہوں نے ایک رٹ دائر کر کے موقف اختیار کیا کہ "نئی JIT کی تشکیل سے متعلق سپریم کورٹ کا کوئی حکم موجود نہیں ہے اور نئی JIT کی وجہ سے ماڈل ٹاون کا ٹرائل متاثر ہو رہا ہے اس لیے عدالت نئی JIT کو کالعدم قرار دے اور عدالتی فیصلہ آنے تک
8/15
نئی JIT کو تحقیقات سے روکے۔"

لاھور ہائی کورٹ نے یہ درخواست وصول ہوتے ہی انتہائی سرعت کے ساتھ جسٹس قاسم خان، جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس ملک شہزاد پر مشتمل 3 رکنی بنچ تشکیل دے کر اگلے ہی دین یعنی 22 مارچ 2019 کی تاریخ مقرر کر دی اور عدالتی عملے نے اس اہم ترین کیس کے متعلق
9/15
ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو اطلاع دینے تک کی زحمت نہیں کی جو اس کیس کے اہم ترین فریق تھے

اور پھر 22 مارچ 2019 کو اس کیس کی پہلی سماعت میں ہی لاھور ہائی کورٹ کے مندرجہ بالا 3 رکنی بنچ نے درخواست منظور کرتے ہوئے نئی JIT کو کام سے روکنے کا حکم جاری کر دیا
10/15 https://urdu.arynews.tv/lhc-stop-jit-model-town-inquiry/
جس پر ایڈووکیٹ جنرل کا سخت ترین احتجاج بھی عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے

لاھور ہائی کورٹ کے اس حکم کے خلاف سانحہ ماڈل ٹاون کے متاثرین نے لاھور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کرنے کے علاوہ ایک بار پھر سپریم کورٹ میں بھی استدعا کی کہ سپریم کورٹ لاھور ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ کالعدم قرار دے
11/15
جس پر تقریباً ایک سال بعد 13 فروری 2020 کو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرین کی مختلف درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے لاھور ہائی کورٹ کے 22 مارچ کے فیصلے کو تو کالعدم نہیں کیا البتہ لاھور ہائی کورٹ کو یہ حکم ضرور
12/15
دیا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاون کے متاثرین کی اپیلیں 90 روز میں نمٹائے

یاد رہےکہ کل 7 دسمبر کو لاھور ہائی کورٹ کے جس 7 رکنی بنچ نے یہ سماعت کرنی ہے اس بنچ میں وہ تینوں جج صاحبان بھی موجود ہیں جنہوں نے 22 مارچ 2019 کو نئی JIT کو کام کرنے سے روکا تھا اور 22 مارچ 2019 کا فیصلہ کرنے
13/15
والے بنچ کے سربراہ جسٹس قاسم خان آج چیف جسٹس لاھور ہائی کورٹ ہونے کے علاوہ موجودہ سات رکنی بنچ کے سربراہ بھی ہیں

اس سب کے علاوہ یہ بھی ذہن میں رہے کہ اس اہم ترین سماعت کو ٹالنے کا ایک آسان اور روایتی عدالتی مافیائی حربہ یہ بھی ہے کہ ان 7 جج صاحبان میں سے کوئی ایک جج کسی
14/15
بھی بہانے کل کی چھٹی کر لے، اس طرح بنچ کا کورم پورا نہ ہونے کی بنیاد پر کل ہونے والی سماعت ایک بار پھر غیرمعینہ مدت کیلیے ملتوی ہو جائے گی اور کسی پر کوئی حرف بھی نہیں آئے گا 😠
15/15

ندیم زیدی لاھور

@GandapurPAT
ضروری وضاحت

22 مارچ 2019 کو لاھور ہائی کورٹ کے 3 رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس قاسم خان نئی JIT کو کام سے روکنے کے حق میں نہیں تھے، انہوں نے اپنے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا تھا جبکہ جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس ملک شہزاد نے JIT کو کام سے روکنے کا فیصلہ دیا تھا ****
You can follow @_NadeemZaidi.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.