آج 3دسمبر پنجابی زبان کے عوامی شاعراستاد دامن کی برسی ہے.
استاد دامن کااصل نام چراغ دین تھا۔آپ یکم جنوری 1910کو
چوک متی لاہورمیں پیداہوئے۔والدمیراں بخش درزی تھے۔گھریلوحالات کے پیش نظر
استاددامن نےبھی تعلیم کے ساتھ ٹیلرنگ کاکام شروع کر دیا۔انہوں نےساندہ کےدیو سماج سکول سے+1/13
میٹرک کاامتحان پاس کیا۔
شعر گوئی کی ابتدا بڑے بھائی کی وفات پر مرثیےسےکی۔مگر باقاعدہ شاعری کاآغاز میٹرک کے بعدکیا۔پہلےہمدم تخلص کرتے
تھےلیکن پھر دامن اختیارکیا۔ جلدہی انکی عوامی مقبولیت میں اضافہ ہوتاگیااورانہوں نےسیاسی جلسوں میں بھی نظمیں پڑھنے کا آغازکیا۔حصولِ آزادی کی۔۔+2/13
جدوجہدمیں وہ نشنل۔کانگریس کے فعال کارکن تھے۔1947 کے فسادات میں استاد دامن کی بیوی اور ان کا بچہ ان سے بچھڑ گیا۔ کچھ دنوں بعد وہ ملے،مگر زیادہ دن زندہ نہ رہ سکے اور استاد دامن کو ہمیشہ کے لئے تنہا چھوڑ گئے۔ اس واقعہ نے استاد دامن کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا اور پھر اس کے بعد+3/13
استاد دامن نےدوبارہ شادی نہیں کی اور ساری عمرتنہازندگی گزار دی۔انہوں نے ٹکسالی دروازے کی مسجد کے ایک حجرے کو اپنا مسکن بنالیا۔استاد دامن نے مزدوروں ،کسانوں، غریبوں اور مزدوروں کی حمایت اور حقوق کیلئے آواز اٹھائی اور ہمیشہ استحصالی طبقات کی مذمت کرتے رہے ۔استاد دامن نے +4/13
عوامی اجتماعات میں اپنے کلام کے ذریعےاستحصالی قوتوں کو
بےنقاب کیا۔انہوں نےپنجابی زبان و ادب کےفروغ کیلئےگراں قدر
خدمات سرانجام دیں.۔استاددامن کی سب سےبڑی خوبی انکی فی البدیہہ گوئی تھی۔آزادی کےکچھ عرصہ بعدانہوں نےدلی میں منعقدہ مشاعرےمیں اپنی یہ فی۔البدیہہ نظم پڑھی۔+5/13
جاگن والیاں رج کے لٹیا اے
سوئےتسی وی او،سوئےاسیں وی آں
لالی اکھیاں دی پئی دسدی اے
روئےتسی وی او،روئے اسیں وی آں
حاضرین مشاعرہ بےاختیار رونے لگے۔مشاعرےمیں پنڈت جواہرلعل نہرو(وزیراعظم بھارت)بھی موجودتھے۔انہوں نےاستاددامن سےاس خواہش کااظہارکیاکہ وہ مستقل طورپربھارت میں سکونت۔+6/13
اختیارکرلیں۔
لیکن استاددامن نےجواب دیا۔ ’’میں پاکستان وچ رہواں گا بھاویں جیل وچ رہواں‘‘۔استاد دامن کو لاہور سے بہت محبت تھی۔انہوں نے ’’شہر لاہور‘‘ نظم لکھی۔ اس نظم کے دو شعر دیکھیے۔
ہور شہر کیہ تیرے اگے
تیرے وچ اک دیوا جگے

مہر جتھے ولیاں نوں لگے
کہن تینوں داتا دی نگری
+7/13۔
قیام پاکستان کےبعد کچھ شرپسندوں نےانکی ذاتی لائبریری اوردکان کوآگ لگادی تو انکی ذاتی تحریریں،ہیرکامسودہ جسےوہ مکمل کررہےتھےاور دوسری کتابیں جل کرراکھ ہو گئیں ۔۔انہوں نےدل برداشتہ ہوکر اپنا کلام کاغذپر محفوظ کرنا چھوڑدیااورصرف اپنےحافظےپر بھرودہ کرنے لگے۔اس وجہ۔سے ان کا۔۔+8/13
کافی کلام ضائع ہوگیا لیکن ان کی یاد میں قائم ہو نے والی استاد دامن اکیڈمی کے عہدداروں نے بڑی محبت وکاوش سے ان کے مختلف ذہنوں میں محفوظ اور ادھر ادھر بکھر ے ہو ئے کلام کو یکجا کر کے’’ دامن دے موتی‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کرائی ۔استاد دامن پنجابی اوراردو کے علاوہ سنسکرت۔۔+9/13
گرمکھی، عربی، فارسی، روسی، انگریزی اور ہندی زبانوں سے بھی آگاہ تھے،لیکن انہوں نےوسیلہ اظہاراپنی ماں بولی پنجابی ہی کوبنایا۔استاد دامن بلھےشاہ اکیڈمی کےسرپرست،مجلس شاہ حسین کےسرپرست اورریڈیو پاکستان شعبہ پنجابی کےمشیر بھی تھے۔ان مختلف حیثیتوں میں انھوں نےپنجابی زبان وادب۔۔+10/13
کی ناقابل فراموش خدمات سرانجام دیں۔استاد دامن جالب اورفیض احمدفیض سےبہت محبت کرتےتھے۔80 کی دہائی میں منہ بولےبیٹےفلم سٹارعلاؤالدین کےانتقال کےبعداستاددامن غمزدہ رہنےلگے۔پھرتھوڑےہی عرصے
کےبعدفیض صاحب بھی خالق حقیقی سےجاملے۔استاد دامن سے محبت کرنےوالوں کے روکنے کے باوجود۔۔+11/13
آپ فیض صاحب کےجنازےپر پہنچے۔لوگوں نے استاد کو پہلی بار دھاڑیں مار تے ہوئےدیکھا۔فیض کےانتقال کے صرف تیرہ دن بعد ہی 3 دسمبر 1984کواستاد دامن بھی اپنے چاہنےوالوں سے ہمیشہ کےلئیے رخصت ہوگئےاستاد دامن کی آخری آرام گاہ شاہ حسین کے مزار کے سامنے قبرستان میں ہے۔مزار کے کتنبے پر+12/13
یہ اشعار تحریر ہیں۔
ماری سرسری نظر جہان اندر
تے زندگی ورق اُتھلیا میں

دامن ملیا نہ کوئی رفیق مینوں
ماری کفن دی بُکل تے چلیا میں
13/13
You can follow @zahida_rahim.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.