جی ڈی پی کو ہم اگر پاکستانی روپوں میں دیکھیں تو فنانس منسٹری کی ویب سایئٹ کے مطابق 2013-2014 میں جی ڈی پی 25.4 ٹریلین پاکستانی روپے، 2014-2015 میں 27.3 ٹریلین پاکستانی روپے، 2015-2016 میں 29.6 ٹریلین پاکستانی روپے، 2016-2017 میں 31.8 ٹریلین پاکستانی روپے، 2017-2018 میں
1/n
1/n
2017-2018 میں 34.4 ٹریلین پاکستانی روپے، 2018-2019 میں 38.5 ٹریلین پاکستانی روپے جبکہ 2019-2020 میں 41.7 ٹریلین پاکستانی روپے کی تھی-اب یہ جو گروتھ ریٹ ن لیگ کے دور میں کاغذوں میں زیادہ اور اب کم دکھتی ہے اس کی وجوہات یہ ہیں؟
2/n
2/n
1- فنانس ڈویژن کی ویب سایئٹ کے مطابق پاکستانی روپوں میں جی ڈی پی زیادہ ہوئی جبکہ ڈالرز میں کم ہوئی- 2013 سے لیکر 2018 تک ڈالر کی قیمت ایوریج 100 روپے تھی جو کہ مارکیٹ کے ریٹ کے مطابق نہیں تھی بلکہ اس کو 100 روپے پر رکھا گیا-
3/n
3/n
تجارتی خسارہ، کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ، اور دوسرے اخراجات ڈالر کی 100 روپے قیمت کو سپورٹ نہیں کرتے تھے لہذا جی ڈی پی کو کاغذوں میں بہتر دیکھانے کے لیئے ڈالر کی قیمت کو مینو پلیٹ کیا جاتا رہا- جس سے ایکسپورٹ تباہ ہوئی اور امپورٹ بہتر ہونے کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید بڑھائی گئی
4/n
4/n
اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے لیئے مارکیٹ کو مینوپلیٹ کیا گیا تاکہ لوگوں کی پرچیزنگ پاور کم نہ پڑے اور جی ڈی پی کے چار فیکٹرز میں پہلے فیکٹر کو بڑھایا جاسکے- جبکہ جی ڈی پی کے باقی 3 فیکٹرز کو مکمل تباہ کردیا گیا- 2018 میں جب عمران خان نے حکومت سنبھالی
5/n
5/n
جی ڈی پی کے 3 فیکٹرز پہلے ہی مکمل تباہی کا شکار تھے صرف پرچیزنگ پاور کا فیکٹر ٹھیک تھا جو کہ ڈالر کی قیمت کو مصنوع طور پر روک کر صحیح رکھا گیا تھا تو عمران خان نے حکومت سنبھالی تو جیسے ہی ڈالر کی قیمت مارکیٹ ریٹ پر لائی اس سے جی ڈی پی کا چوتھا فیکٹر بھی کم ہوگیا-
6/n
6/n
یہی وہ وجہ تھی جس سے جی ڈی پی دھڑام سے نیچے گری- ڈالر کو فکس ریٹ پر رکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اس کے لیئے آپ کے پاس ڈالر کی قیمت کو سپورٹ کرنے کے لیئے فارن ریزوز، کرنٹ اکاؤنٹ اکاؤنٹ بیلنس، تجارتی بیلنس اور آپ کی آمدنی اتنی ہونی چاہیئے کہ
7/n
7/n
آپ کو ڈالر کی قیمت کو فکس کرنے کے لیئے اپنے فارن ریزوز کی قربانی نہ دینی پڑی یا پھر قرضے نہ لینے پڑیں- لیکن ہم نے کاغذوں میں سب اچھا دکھانے کے لیئے اکانومی کو اصولوں سے ہٹ کر چلایا جس سے کاغذوں میں سب اچھا ہوگیا لیکن گراؤنڈ میں سب کچھ تباہ ہوگیا-
8/n
8/n
اور وہ لوگ جن کو اکانومی کی الف ب نہیں پتہ وہ جی ڈی پی کا رونا شروع کردیتے ہیں- یہ جو کچھ اتنے عرصے میں تباہ کیا گیا اس کو صرف 2 سالوں میں ٹھیک نہ کرنے کا دعوی کرنے والوں کا بھی اپنا لیول ہے- اکانومی کے کونے کھدرے اس وقت فل ہوگئے
9/n
9/n
اب اس کے فوائد آپ کو سرفس سے اوپر محسوس ہوتے دکھائی دیں گے- جس کی واضح مثال انڈسٹری کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے ، کرنٹ اکاؤنٹ کا بیلنس کا سرپلس میں ہونا اور پاکستانی بینکوں سے قرضوں کا نہ لینا ہے- باقی لفافے آپکو جو مرضی کہتے رہیں ان کی باتوں پر دھیان دینے کی ضرورت نہیں-
n/n
n/n