باقی دنیا اور ہم
انسان کے سوچنے کا عمل ہی اسے دوسرے حیوانوں سے منفرد بناتی ہے. ابتدائی انسان کے جتنے مسائل تھے، وہاں تک سوچ تھی. وقت کے ساتھ ساتھ جہاں انسانی ضروریات اور مائل بڑھنے لگے، وہاں انسانی سوچ بھی نت نئی چیزوں کا بارے میں سوچنے لگا.
انسان کے سوچنے کا عمل ہی اسے دوسرے حیوانوں سے منفرد بناتی ہے. ابتدائی انسان کے جتنے مسائل تھے، وہاں تک سوچ تھی. وقت کے ساتھ ساتھ جہاں انسانی ضروریات اور مائل بڑھنے لگے، وہاں انسانی سوچ بھی نت نئی چیزوں کا بارے میں سوچنے لگا.
مختلف ارتقائی ادوار سے گزرنے کے بعد آج کا انسان ترقی کے جس دوراہے پہ کھڑا ہے، شائد ہی کسی کے وہم وگماں میں بھی ہو. لیکن انسان کا یہ ارتقائی سفر ایک دن، ہفتہ، مہیںہ، سال یا ہزار سال نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ہزاروں سال ایک نہ ختم ہونے ذہنی اور جسمانی مشقت کار فرماں ہے.
چونکہ، پرانے ادوار میں انسان کے پاس وسائل کی کمی کی وجہ سے علم تک رسائی میں جہاں مشکلات تھی، پھر بھی انسان معمول کی زندگی میں جانے انجانے مین اپنے معاملات میں جدت لانے کا قائل رہا.
آہستہ آہستہ انسان کے پاس وسائل آنے سے حصول علم میں آسانیاں آنے لگی. جہاں علم پھیلنے کا عمل شروع ہوا، ساتھ میں انسانی خیالات بھی بدلنے لگے. چودھویں صدی کے یورپ میں نشاط ثانیہ کی تحریک سے لوگ روائتی سوچ اور طور طریقے ترک کرنے کے ساتھ نئی سوچ اور سائنسی ایجادات کی بڑھنے لگے.
ایک طرف نئے خیالات اپناے اور سائنسی ایجادات پہ یقین کرنے والے لوگ، تو دوسری طرف نئی سوج اور ایجادات کے مخالفت والے. وہ لوگ اس حوالے اس لئے خوش قسمت ثابت ہوئے، کہ نئی سوچ اپنانے والے لوگ دن رات ایک کر کے لوگوں کو بحث و مباحثوں اور لکھائی کے ذریعے عام انسان تک اپنے پیغام، مشکلات کے
باوجود بھی پہنچا گئے.
دوسری طرف آج کا انسان جہاں چاند پہ جانے کے بعد مریخ جانے کی تگ ودو کر رہا ہے. وہاں پہ ہم ابھی تک پرانے خیالات اور رہن سہن میں پھنسے ہوے ہے. باقی دنیا سے مقابلہ کرنے کی بجائے ہم ان ہی کے خیالات اور سائنسی تجربات کو بغیر کس دلیل کے رد کرنے پہ ہم اپنا وقت اور
دوسری طرف آج کا انسان جہاں چاند پہ جانے کے بعد مریخ جانے کی تگ ودو کر رہا ہے. وہاں پہ ہم ابھی تک پرانے خیالات اور رہن سہن میں پھنسے ہوے ہے. باقی دنیا سے مقابلہ کرنے کی بجائے ہم ان ہی کے خیالات اور سائنسی تجربات کو بغیر کس دلیل کے رد کرنے پہ ہم اپنا وقت اور
اور توانائیاں صرف کر رہے ہے. کم علمی اور کتاب سے دوری کی وجہ سے جہاں ہم نے سوچنا گناہ سمجھا ہوا ہے. وہاں دوسرے انسانوں کی محنت اور ترقی کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہے.
آج ہم عجیب الجھنوں کا شکاار ہے. ایک طرف سائنس کے وجود اور ترقی سے انکاری ہے، تو دوسری طرف کہتے ہے
آج ہم عجیب الجھنوں کا شکاار ہے. ایک طرف سائنس کے وجود اور ترقی سے انکاری ہے، تو دوسری طرف کہتے ہے
کہ سائنسی تجربات قرآن کو ہی بنیاد بنا کر کی گئی ہے، یا کی جاتی ہے. آج کے ہی دور میں محفل میں کسی سے انسان کے چاند پہ جانے کی بات کی جاتی ہے، تو اس کو جھوٹ کہا جاتا ہے، دوسرے ہی لمحے کہا جاتا ہے کہ چاند پہ پہنچ کہ انسان نے سب سے پہلے جو آواز سنی تھی، وہ آذان تھی.
اور بعض تو یہاں تک بھی کہتے ہوے ملے گے، کہ چاند سے واپسی پہ نیل آرمسٹرانگ نے اسلام قبول کی تھی.