راول پنڈی: جیسا میں نے دیکھا
یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں کہ جب راولپنڈی ایک چھوٹا اور انتہائی پرسکون شہر ھوا کرتا تھا۔1980ءکی دہائی تک شہر مریڑ چوک سے شروع ھو کر سکستھ روڈ پر ختم ھو جاتا تھا۔اس وقت راولپنڈی میں نہ تو بے ہنگم ٹریفک کا اژدھام تھا نہ ہی صفائی ستھرائی کی ابتر حالت۔
تقریباً ہر چھوٹے بڑے گھر میں درخت اور پودے عام ھوا کرتے تھے۔زیر زمین پانی کے وافر ذخائر کی وجہ سے شہر میں پانی کی کوئی قلت نہ تھی ۔تقریباً ہر دوسرے تیسرے گھر میں کنواں ھوا کرتا تھا بلکہ ہر محلے میں بھی ایک بڑا کنواں عام تھا جہاں سے بہشتی جنھیں پنڈی میں ماشکی کہا جاتا تھا
چمڑے کے مشکیزوں میں گھر گھر پانی پہنچاتے تھے ۔ایسا ہی ایک بڑا کنواں چاہ سلطان تھا جس کی وجہ سے پورے علاقے کا نام سلطان دا کھوہ مشہور ھوگیا۔راول پنڈی کی ایک خاص بات تازہ سبزیاں ھوا کرتیں تھیں ۔کھنہ اور تر لائی کے مضافات سے منہ اندھیرے بیل گاڑیاں تازہ ترکاریوں اور پھلوں سے
لدی آ جاتی تھیں۔ آ ج کے شمس آباد سے فیض آ باد کے درمیان کھیت ھوا کرتے تھے بلکہ آ ج کل کے بہت سے پر ہجوم علاقے جیسے چکلالہ ہاؤسنگ سکیم,مسلم ٹاؤن,ائیر پورٹ ہاؤسنگ سوسائٹی وغیرہ وغیرہ کا کوئی وجود نہ تھا ۔یہ سب کھیت کھلیان اور زرعی رقبے تھے ۔
شہر کا مرکزی بس اڈا لیاقت باغ ھوتا تھا
جسے 1976ءیا 1977ء میں پیر ودھائی منتقل کیا گیا تھا۔لیاقت باغ سے ہی مختلف شہروں اور قصبات کو بسیں جایا کرتی تھیں ۔مری روڈ شہر کی مرکزی شاہراہ تھی جسے غالباً 1976ء میں شاہ ایران کے نام پر محمد رضا شاہ پہلوی روڈ کا نام دے دیا گیا تھا۔سڑک کے درمیان میں پودے ھوا کرتے تھے جن پر موسمی
پھول بہار دکھلاتے تھے اور جی ہاں راول پنڈی میں ایک چاندنی چوک بھی ھوا کرتا تھا ۔اس چوک کے بیچوں بیچ ایک گول چمن تھا ۔چوک میں سے کمرشل مارکیٹ کی طرف جاتی سڑک پہ بہت خوش ذائقہ اور عمدہ دہی بھلے ملا کرتے تھے ۔کمرشل مارکیٹ کھلے بر آ مدوں اور کشادہ سڑکوں والی ایک چھوٹی سی مارکیٹ ھوا
کرتی تھی ۔یہ بر آ مدے اب بھی ہیں لیکن تجاویزات سے اٹ چکے ہیں ۔
چاندنی چوک سے کمرشل مارکیٹ کے درمیان سب رہائشی علاقہ تھا جس میں اونچے لمبے درخت سر سبز و شاداب پھول اور پودے تھے ۔یوں چاندنی چوک سے کمرشل مارکیٹ ایک پر لطف واک ھوا کرتی تھی ۔راول پنڈی میں رکشے نہیں ھوتے تھے ۔
ٹانگہ ایک مقبول عام سواری تھی ۔کھاتے پیتے لوگ کالی پیلی مورس ٹیکسی کو ترجیح دیتے تھے لیکن شہر میں ٹانگے کا ہی چلن تھا۔فوارہ چوک "کمیٹی چوک" چوک چاہ سلطان اور بنی چوک جسے اب شاید سنی چوک کہا جاتا ھے ,بڑے ٹانگہ اسٹینڈ تھے ۔یہاں گھوڑوں کو پانی پلانے کے حوض بھی ھوا کرتے تھے ۔
چند علاقوں کو چھوڑ کر شہر عشاء کے بعد سنسان ھو جاتا تھا. گھر سے باہر کھانا کھانے کا رواج نہ تھا۔رات کا اگر کچھ کھانے پینے کا موڈ ھوتا تو کمیٹی چوک پہ ایک دودھ دہی کی دکان مقبول تھی۔کالج روڈ اور بنی محلہ میں تکے اور کباب کی دکانیں رات دیر تک کھلی رہتی تھیں لیکن انھیں ناپسندیدہ
سمجھا جاتا تھا کیونکہ گمان تھا کہ صرف اوباش اور آ وارہ منش لوگ رات گئے ان جگہوں کا رخ کرتے تھے۔
اسلام آباد سے ائیرپورٹ جانے کے لئے فیض آ باد سے ڈائریکٹ سڑک تو موجود تھی لیکن ذیادہ تر لوگ مری روڈ سے چاہ سلطان چوک کے راستے سے ائیر پورٹ جاتے تھے بچپن میں کئی دفعہ اس سڑک پہ وزیراعظم
پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو ائیر پورٹ آ تے جاتے دیکھا تھا۔اس زمانے میں وی آئی پی کے لئے ٹریفک بلکہ شہر وں کو بند نہیں کیا جاتا تھا ۔شہر کی سیاسی قیادت خورشید حسن میر,جاوید حکیم قریشی ,اصلی شیخ رشید ایڈوکیٹ اور راجہ انور جیسے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ ظرف شخصیات کے پاس تھی۔ ملک کے
بہت سے اھم علمی اور ادبی نام راول پنڈی کے رہائشی تھے. مثلاً شفیق الرحمان,ممتاز مفتی,سید ضمیر جعفری,کرنل محمد خان,انور مسعود , عزیز ملک بلکہ اگر لکھتے جائیں تو یہ فہرست خاصی طویل ھو جائے گی۔
شہر میں کھیلوں کے بہت سے میدان اور باغات تھے مری روڈ پر تین بڑے میدان سنٹرل ہسپتال گراونڈ
شبستان سینما اور لیاقت باغ گراؤنڈ واقع تھے اور ہر رہائشی علاقے میں کوئی نہ کوئی میدان یا پارک تھا۔افسوس یہ سب تجاوزات اور عاقبت نااندیش ڈویلپمنٹ کی بھینٹ چڑھ گیا۔
"برٹش انڈین بری فوج " کے شمالی برصغیر کمانڈ کا ہیڈ کوارٹر ھونے کی وجہ سے راول پنڈی کی اھمیت آ زادی سے پہلے بھی تھی ۔
مریڑ چوک سے آ گے چھاؤنی کا علاقہ سر سبز,خاموش اور انتہائی صاف ستھرا ھوا کرتا تھا. چھاؤنی کی تعمیرات میں وکٹورین اور برٹش راج کی طرز تعمیر نمایاں تھی۔تاریخی طور پر راول پنڈی ہندوؤں اور سکھوں کا شہر تھا تقریباً سارے ہی قدیمی رہائشی علاقے مثلاً کرتار پورہ,انگت پورہ,باغ سرداراں,
امر پورہ,موھن پورہ, آ ریہ محلہ ,چٹیاں ہٹیاں ہندوؤں اور سکھوں کے بسائے تھے اور شہر کے زیادہ تر بیوپاری اور تاجر بھی ہندو یا سکھ ہی تھے ۔ویسے تو پرانے شہر کا حلیہ بگڑ کر رہ گیا ھے لیکن آ ج بھی بہت سے گھر اور خوبصورت تاریخی عمارات موجود ہیں ۔یہ شہر کا تاریخی ورثہ ہیں۔جنھیں
سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ھے نہ جانے یہ کون کرے گا؟
قارئین کرام یہ سب زمانہ قدیم کی باتیں نہیں ہیں۔وہ تمام لوگ جو 70 ءاور 80ءکی دہائیوں کے راول پنڈی کو دیکھ چکے ہیں یقیناً اس پر سکون اور سر سبز و شاداب شہر کو نہیں بھولے ھوں گے جہاں سب ایک دوسرے کو جانتے تھے۔سب کو یاد ھوگا کہ
راول پنڈی کیسا ھوا کرتا تھا اور اب کیا بن کر رہ گیا ھے ۔۔
جہاں زیب عزیز

#ھمارےشہر
You can follow @Mongolkurri.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.