پس پردہ حقائق ۔
#IG_PUNJAB
*اسے معطل نہ کرو بلکہ ہتھکڑی لگاؤ*
*شعیب دستگیر (X IG ) اور عمر شیخ (CCPO ) کے درمیان تنازعے کا ڈراپ سین*

کیا عمران خان نے پنجاب میں پولیس ری فارمز پر فوکس کر لیا ہے بظاہر یہی لگتا ہے اور اس بات کا عندیہ شعیب دستگیر (سابق آئی جی پنجاب) اور CCPO
لاہور عمر شیخ کے درمیان چلنے والی ایک ٹسل سے ملتا ہے ن لیگی رہنما افضل کھوکھر اور سیف الملوک کھوکھر کے لوگوں نے ایک شخص یوسف کے پلاٹ پر قبضہ کیا بعد میں اسے قتل بھی کردیا مقتول تھانے میں بار بار اپنی جان کی حفاظت کے لیے ایس ایچ او سے مدد مانگتا رہا مگر سنوائی نہ ہو یوسف کے
قتل کے بعد معاملہ سی سی پی او لاہور عمر شیخ تک پہنچ گیا عمر شیخ نے خود انکوائری کی تو پتہ چلا کہ متعلقہ تھانے کا SHO ملزمان ( جن پر 16 مقدمات پہلے سے درج تھے) کے ساتھ ملا ہوا تھا عمر شیخ نے جب اس ایس ایچ او کے بارے میں استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ آئی جی صاحب کے حکم پر اس ایس
او کو معطل کر کے معاملہ رفع دفعہ کردیا گیا ہے سی سی پی او عمر شیخ نے اس معطل ہوئے ایس ایچ او کو بلایا اور حکم دیا کہ اسے صرف معطل نہ کرو ہتھکڑی بھی لگاؤ کیونکہ یہ قاتل ہے

یہاں کہانی میں اس وقت twist آتا ہے جب شعیب دستگیر (اس وقت کے آئی جی پنجاب) نے معطل ایس ایچ او کے
گرفتار کیے جانے کو اپنی توہین سمجھا اور عمر شیخ کے خلاف احتجاجی رویہ اپناتے ہوئے پنجاب پولیس میں لابی شروع کردی اور مزید ایک قدم آگے جاتے ہوئے عمر شیخ کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا، وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار نے آئی جی پنجاب کے اس انتہائی ایکشن کے متعلق انکوائری کروائی تو
پتہ چلا کہ آئی جی شعیب دستگیر کی ڈوریاں جاتی عمرہ سے ہلائی جا رہی تھیں کیونکہ عمر شیخ نے مقتول یوسف کے قتل کے مقدمے میں ن لیگی رہنماؤں کے لوگوں کو نامزد کیا تھا جبکہ شعیب دستگیر مقدمے میں ان نامزدگیاں کے بھی خلاف تھے وزیراعلی عثمان بزدار نے ٹھوس ثبوتوں کے ساتھ آئی جی پنجاب
شعیب دستگیر سے تیکھے سوالات پوچھے تو تسلی بخش جوابات نہ ملنے پر شعیب دستگیر کو ہٹانے کا فیصلہ کر لیا گیا

ڈاکٹر عشرت حسین ( سابق گورنر اسٹیٹ بنک) نے اپنی کتاب Govern The Ungovernable میں پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے ایک حصہ قیام پاکستان سے لے کر 1990 تک اور دوسرا
حصہ 1990 سے 2018 تک ، ڈاکٹر عشرت حسین لکھتے ہیں کہ پہلے حصے میں پاکستان نے خوب ترقی کی مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باوجود ڈیمز بنائے بہترین ادارے کھڑے کیے PIA نے اپنا لوہا منوایا، حیران کن معاشی گروتھ حاصل کی جبکہ دوسرے حصے میں (1990 سے 2018) پاکستان کا زوال شروع ہوا کیونکہ
اس دور میں بیورکریسی میں میرٹ سے زیادہ سیاسی طور منظور نظر ہونا ضروری ہوچکا تھا، غور فرمائیے یہ وہ دور ہے جب نواز شریف ملکی سیاست کے Key Player بن چکے تھے

آج عمران خان کا واسطہ اسی سیاسی منظور نظر بیورکریسی کے افسران سے پڑ رہا ہے ایسے افسران کارکردگی دکھانے کی بجائے کسی کے
منظور نظر رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں جو پولیس افسر کی کسی بھی سنگین غلطی (جرم) کے بعد اسکو معطل کرکے cover کرتے ہیں اور پھر اگلے تین ماہ میں وہ افسر دوبارہ بحال ہوکر دھڑلے سے اگلے جرم میں شامل ہوتا ہے پنجاب میں پچھلے دو سالوں میں پانچ آئی جی تبدیل ہوئے وجہ ایک
ہی ہے کوئی آئی جی پولیس ریفارمز میں اصلاحات نہیں چاہتا کیونکہ یہ اصلاحات دراصل محکمہ پولیس کے لیے سزا ثابت ہوں گی اور کوئی آئی جی اپنے محکمے کی لوگوں کی نظر میں ولن نہیں بننا چاہتا اور آئی جی شعیب دستگیر بھی پنجاب پولیس کا ولن نہئں بننا چاہتے تھے

شعیب دستگیر بھلے آئی جی
نہ رہے ہوں مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی کیونکہ عمر شیخ سی سی پی او لاہور کے خلاف محکمہ پولیس کے اندر بغاوت شروع ہونے جارہی ہے انکا پولیس کی اہم میٹینگز میں بائیکاٹ کیا جارہا ہے ان پر دباؤ بنایا جا رہا ہے کہ وہ پولیس ریفارمز لانے سے باز رہیں، عمران خان نے عمر شیخ کو مکمل اختیار
دیا ہے کہ وہ لاہور کو سیاسی قبضہ مافیا سے چھٹکارہ دلائیں اور نوٹ کرلیں کہ عمر شیخ اگلی آئی پنجاب بھی ہوسکتے ہیں
You can follow @Desert_Wali.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.