غربت سے پناہ مانگی گئ ہے
آج لگا شاید اس لیے کہ غربت صرف آپ سے اچھی زندگی ہی نہیں چھینتی ، آپ کے اندر تک کو اس طرح برباد کر دیتی ہے کہ زندگی کے بہت سے اچھے رنگ ، جذبے بھی محسوس نہیں کرنے دیتی ،
اپنے بچوں کو کام پر لگوانا، کہیں اندر ممتا اور باپ کی شفقت مرتی ہو گی
بھوک , انا ،
آج لگا شاید اس لیے کہ غربت صرف آپ سے اچھی زندگی ہی نہیں چھینتی ، آپ کے اندر تک کو اس طرح برباد کر دیتی ہے کہ زندگی کے بہت سے اچھے رنگ ، جذبے بھی محسوس نہیں کرنے دیتی ،
اپنے بچوں کو کام پر لگوانا، کہیں اندر ممتا اور باپ کی شفقت مرتی ہو گی
بھوک , انا ،
اور خود داری تو کیا سر اٹھانے کی خواہش تک چھین لیتی ہے ، اگر کچھ یاد رہتا ہے تو کھانا ، جیسے منشی پریم چند کے کردار کفن کے پیسوں سے شراب پیتے ہیں مگر آپ کو ان سے نفرت نہیں ہوتی ، کام چور کاہل ہیں مگر ذہن ان کی غلطی نہیں مانتا اور تو اور اس کے پنجے اتنے گہرے ہیں کہ اکثر لوئر مڈل
کلاس جب کچھ معاشی طور پر اچھا کرنے لگے تو ان گھروں میں چیزوں کی قیمت انسانی جذبات اور انا سے زیادہ ہوتی ہے ، چھوٹی سی چیز کے خراب ہونے پر گھر کا بڑا بھی چھوٹا کر دیا جاتا ہے ، تو کہیں کچھ مہنگا لے لیا جاۓ تو اس کو دکھانے کی خواہش کیسے ایک معصوم انسان کا مذاق تک بنا کر رکھ دیتی ہے
باہر کی غربت تو پھر چلی جاتی ہے مگر جن کے اندر نقش ہو جاۓ وہ چاہ کر بھی پھر اس سے جان نہیں چھڑا سکتے کڑوڑوں کے مالک اپنی ذات کے سوا کسی پر روپییہ خرچ نہیں کر سکتے ، دس ہزار کا کھانا کھا کر باہر دو سو دے دیں تو جب تک چار جگہ بتا نہ دیں سکون نہیں پاتے اللہ کبھی اندر غربت نقش نہ ہون
ہونے دے
اندر اور باہر کو امیر ہی رکھے امین
اندر اور باہر کو امیر ہی رکھے امین