گوجرانوالہ میں سہیل مسیح کیخلاف بلاسفیمی کا مقدمہ درج کرانے والے ملاں کا تعلق مسلم لیگ ن کے سابق وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات شاہ کے مدرسے جامعہ محمدیہ غوثیہ سے ہے۔ اس سے پہلے کچھ عرصہ قبل تبلیغی جماعت کے مبلغ کو قتل کرنے والا غازی اکرام ماچھی بھی اسی مدرسے سے تھا
ان مدارس کی خاص بات یہ ہے کہ یکساں نصاب میں جس پالیسی کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے، وہ ان مدارس میں پہلے سے نافذ ہیں۔ انکے طلبہ ایم اے تک بورڈ اور یونیورسٹیوں کا امتحان دیتے ہیں اور آرٹس کے حکومتی نصاب کے مطابق آرٹس کے مضامین انگریزی، معاشیات، پالیٹیکل سائنس، تاریخ وغیرہ پڑھتے ہیں۔
ضیاء الحق کے شریعت کورٹ کے جسٹس کرم شاہ (امین الحسنات کے والد) کا مشن تھا کہ وہ جدید ڈگریوں مثلا ایف اے، بی اے، ایم اے اور درس نظامی کو یکجا کر دیں تاکہ انکے طالبعلم انگریزی بھی پڑھیں اور قدرے جدید میدانوں میں مذہبی ذہن کیساتھ جائیں۔
یہ پالیسی آج سے ۵۰ سال پرانی ملا مسٹر کی تفریق والی ذہنیت کیساتھ تھی اور انگریزی کو مدارس میں لانے سے انگریزی سے نابلد ملاؤں سے بہتر ملاں تیار کرنے کی کوشش تھی۔ یہ پالیسی خاصا عرصہ کامیاب رہی اور ان مدارس کے طلبہ دیگر بریلوی مدارس کی نسبت زیادہ سمارٹ ہوتے۔
بورڈ یونیورسٹی کے امتحانات دینا ان مدارس کے طلبہ کیلئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا کیونکہ رٹے کے ماہر ہوتے ہیں۔ زیادہ تر دیہی علاقوں سے تھرڈ ڈویژن والے طلبہ داخلہ لیتے ہیں اور گولڈ میڈلسٹ بھی بن جاتے ہیں۔ میرے والد کے تقریبا دو اڑھائی سو طلبہ نے بورڈ یونیورسٹیوں میں پوزیشنیں حاصل کیں۔
پندرہ بیس سال قبل جب ایف اے بی اے دیہی علاقوں میں معرکے کی چیز ہوتی اور انگریزی سے عام اسکول کالج کانپتے تو میرے والد کے ۵ طلبہ نے بی اے کی پہلی ۳ پوزیشنیں حاصل کیں۔ اسکے باوجود یہ طالب بلاسفیمی، مساجد پر فرقہ وارانہ قبضے، وہابی دیوبندی پر گستاخی، شیعہ کی تکفیر میں بھی اول ہوتے۔
ان مدارس کے طلبہ انگریزی، اردو، پنجابی، اکنامکس، ایجوکیشن، تاریخ، عربی، اسلامیات اور آرٹس کے تقریبا سبھی مضامین میں سے کسی میں ایم اے، ایم فل، ایل ایل بی وغیرہ کے علاوہ الازہر یونیورسٹی اور جب شام کے حالات ٹھیک تھے تو دمشق یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ تک تعلیم کیلئے جاتے۔
انگریزی سے شدھ بدھ اور بورڈ یونیورسٹیوں کی باقاعدہ ڈگریوں کیوجہ سے انکے لیے قضاء و افتاء کے سرکاری مناصب، آرمی میں امامت، یونیورسٹی ڈیپارٹمنٹس اور بعض اوقات بیوروکریسی میں جانا دیگر مدارس کی نسبت آسان ہے اور مدارس کی ذہنیت مسٹروں والے محکموں میں پھیلانے کا 'مشن' پورا کرتے ہیں۔
میں نے مدرسے سے سائنس میں میٹرک کی۔ یہ کلاس شروع کرنے کا ابا کا مقصد تھا کہ سائنس کو مسٹروں کے ہاتھوں میں چھوڑنے کی بجائے مدرسے کے ماحول میں پڑھائی جائے تاکہ اس فیلڈ میں بھی زیادہ سے زیادہ مذہبی ذہن جائے۔ میرے کلاس فیلو آج بھی غازیوں کی تصویریں لگاتے ہیں۔
ابا کے ایک فارغ التحصیل اسٹوڈنٹ نے ڈڈیال (میرپور، آزاد کشمیر) میں مقامی MLA کیساتھ مدرسے میں کالج لیول کی سائنس پڑھانے کا منصوبہ شروع کیا۔ اسکے پیچھے یہ ذہن تھا کہ پیر کرم شاہ کے مشن کو انگریزی کے بعد سائنس کے مضامین تک وسعت دی جائے اور سائنس کی فیلڈ میں بھی ملاں بھیجے جائیں۔
اس قسم کے منصوبوں کا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ مدارس کے طلبہ کی نوکریوں کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں لیکن مذہبی ذہن رکھتے ہیں، وہ اطمینان سے بچے مولویوں کے حوالے کر دیں۔ یوں بظاہر فیلڈ یا مضمون مدرسے سے متعلق نہیں ہو گا، لیکن وہاں مدرسے سے برین واش شدہ بندہ یا بندی جائے گی۔
مدارس کا جدید مضامین شامل کرنے کا مقصد ملائیت سے پیچھے ہٹ جانا نہیں ہوتا بلکہ اسے لوگوں کے بچے بچیاں گھیرنے اور برین واشنگ کیلئے انکی تعلیم کا وقت حاصل کر لینا ہوتا ہے۔ یوں بظاہر غیر مذہبی ڈگری کیساتھ ساتھ مدرسے کے ماحول میں اسکی نظریاتی ٹریننگ اور فکری ذہن سازی ہو چکی ہوتی ہے۔
اکبرؔ الٰہ آبادی لڑکیوں کو انگریزی پڑھتا دیکھ کر جل بھن گیا لیکن میرے والد نے جامعہ محمدیہ غوثیہ کے انگریزی و درسِ نظامی (دین و دنیا) کے خطوط پر مرتب شدہ نصاب کے مطابق آزاد کشمیر بھر میں لڑکیوں کے مدارس کا جال پھیلا دیا۔ اکبر و اقبال شاعری کرتے رہے، مدرسہ کھولنے کی نہ سوجھی۔
حکومتی پالیسی میں درسِ نظامی کی ڈگری ایچ ای سی کی ایم اے عربی/ اسلامیات کے برابر ہے لیکن جامعہ محمدیہ غوثیہ کے طلبہ و طالبات کے پاس آرٹس کی دیگر فیلڈ میں جانے کے وسیع تر امکانات ہوتے ہیں۔ مریم چغتائی جھوٹ بولتی ہے کہ مدارس میں 'پہلی بار' ایسا ہو رہا ہے۔
جامعہ بنوریہ اور چند دیگر مدارس بھی اسٹڈی کیس ہو سکتے ہیں جہاں فلکیات اور دیگر سائنسی مضامین متعارف ہوئے۔ کیا اس سے انکی قدامت پسندی، فرقہ واریت اور ملائیت پر فرق آیا؟
یکساں نصاب اور مدرسہ ریفارمز والے کس کو دھوکہ دے رہے ہیں؟
کسی سوشیالوجسٹ نے علیگڑھ کے کمیونل اثرات پر تحقیق کی؟
جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی تنظیموں کے اسکول کالج بھی اسٹڈی کیس ہو سکتے ہیں کہ تنقیدی سوچ کے بغیر مذہبی ماحول میں جدید مضامین پڑھانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ یکساں نصاب والے کس ڈھٹائی سے ہذیان بکتے ہیں اور چورن بیچتے ہیں جب اسلامی یونیورسٹی کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔
مدارس میں نئی فیلڈز لانے میں نقصان ہوتا ہے کہ جن طلبہ کے ان مضامین کو پڑھنے کیلئے کالج، یونیورسٹی جا کر دوسرے فرقوں، صوبوں اور قومیتوں کے لوگوں کیساتھ پڑھنے میں معتدل ہونے کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔ انکے پاس ڈگری علاحدہ ہوتی ہے لیکن ذہنیت گھٹن زدہ ملائیت والی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر مریم چغتائی سمیت کسی کو بھی یکساں قومی نصاب کے مدارس پر اثرات کا عملی نمونہ دیکھنا ہے تو میں اپنے والد کی جامعہ محمدیہ غوثیہ کی کشمیر کی برانچز میں وزٹ کرانے کیلئے تیار ہوں۔ خدارا اپنی ہارورڈ اور لمزو کی ڈگریوں کو فیلڈ اسٹڈی کیلئے استعمال کریں اور قوم سے جھوٹ نہ بولیں۔
پیر امین الحسنات شاہ نے ن لیگ کے وفاقی وزیر مملکت ہوتے ہوئے بھی ممتاز قادری کی حمایت کی اور انکے مدارس کے ہزاروں طلبہ خادم رضوی کے دھرنوں کا حصہ بنے یا اپنے اپنے شہروں میں سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ کیا۔ یہ ہر غازی کو ہیرو بناتے ہیں۔ مضامین متعارف کرا دینے سے اس سوچ کا خاتمہ نہیں ہو گا
لبرل اور لیفٹ کے جو لوگ مدارس کے بچوں کے نام پر یکساں قومی نصاب کی حمایت کر رہے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں تم ہمارے ہمدرد نہیں ہو بلکہ ہمارے کرب کو بیچ کر ملاؤں کو مزید مضبوط کرنا چاہتے ہو۔ واضح طور پر ملاؤں کیساتھ کھڑے ہونے کی جرأت خود میں پیدا کرو اور کھوکھلی ہمدردی کا ناٹک نہ کرو
ریاست سے سوال بنتا ہے کہ ایک آدھ واقعے کو بنیاد بنا کر طلبہ یونینز پر پابندی لگا دی جاتی ہے اور ہزاروں فرقہ وارانہ فسادات، قتل و غارت، شدت پسندی اور نفرت انگیزی کے بعد بھی مدارس کیساتھ کس اصول کے تحت معاہدہ ہو رہا ہے اور انہیں نصاب میں مزید کئی گنا طاقتور کیوں بنایا جا رہا ہے؟
You can follow @TahirMujtaba_.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.