انوکھی گواہی
اختر ابھی گھرکے سامنے پہنچا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ چند بوندیں اس کے ہاتھوں پر گریں۔ اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔
ساتھ ہی بارش کی بوندوں کو دیکھ کر مسکرادیا......اسے مسکراتے دیکھ کر اس کی بیوی نے پوچھا ۔
اختر ابھی گھرکے سامنے پہنچا تھا کہ بارش شروع ہوگئی۔ چند بوندیں اس کے ہاتھوں پر گریں۔ اس نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہوگیا۔
ساتھ ہی بارش کی بوندوں کو دیکھ کر مسکرادیا......اسے مسکراتے دیکھ کر اس کی بیوی نے پوچھا ۔
’’ کیا بات ہے ؟ مسکراکیوں رہے ہو ؟ ‘
‘
’’ کچھ نہیں۔ ‘‘
’’ نہیں کوئی تو بات ہے ......بتاؤ ۔ ‘‘
’’ کہَ تو دیا کوئی بات نہیں ۔ ‘‘
’’ لیکن میں نے خود دیکھا ہے......تم بارش کی بوندوں کو دیکھ کر مسکرائے تھے
’’ میں تمھیں اس لیے نہیں بتا سکتا کہ تم بات کو پیٹ میں نہیں رکھ سکوگی
‘
’’ کچھ نہیں۔ ‘‘
’’ نہیں کوئی تو بات ہے ......بتاؤ ۔ ‘‘
’’ کہَ تو دیا کوئی بات نہیں ۔ ‘‘
’’ لیکن میں نے خود دیکھا ہے......تم بارش کی بوندوں کو دیکھ کر مسکرائے تھے
’’ میں تمھیں اس لیے نہیں بتا سکتا کہ تم بات کو پیٹ میں نہیں رکھ سکوگی
اب تواس کی بیوی کا شوق یک دم بڑھ گیا۔ وہ اس کے پیچھے پڑگئی، وہ بولی ۔
’’ اب تو میں پوچھ کر رہوں گی ۔ ‘‘
’’ نہیں ......میں بتا نہیں سکتا ......اور تم نہ ہی پوچھو۔ ‘ ‘
’’ ضرور پوچھ کر رہوں گی ......بتاؤ......کیابات ہے ......ورنہ اس گھر
’’ اب تو میں پوچھ کر رہوں گی ۔ ‘‘
’’ نہیں ......میں بتا نہیں سکتا ......اور تم نہ ہی پوچھو۔ ‘ ‘
’’ ضرور پوچھ کر رہوں گی ......بتاؤ......کیابات ہے ......ورنہ اس گھر
میں روز جنگ ہوگی سارا محلہ اس جنگ کو سنے گا......بتاؤ۔ ‘‘
اب وہ مجبو ر ہوگیا......آخر اس نے کہا.
’’ پہلے وعدہ کرو......کسی کو نہیں بتاؤ گی۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے نہیں بتاؤں گی ۔ ‘‘
’’ پکا وعدہ کرو......پکا وعدہ ۔ ‘‘
اب وہ مجبو ر ہوگیا......آخر اس نے کہا.
’’ پہلے وعدہ کرو......کسی کو نہیں بتاؤ گی۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے نہیں بتاؤں گی ۔ ‘‘
’’ پکا وعدہ کرو......پکا وعدہ ۔ ‘‘
’’ سوفی صد پکا وعدہ رہا......‘‘
’’ توپھر سنو......کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے محلے کے ایک آدمی کو قتل کیا تھا۔ ‘‘
’’ کیا !‘‘
اس کی بیوی دھک سے رہ گئی۔ پھر اس نے کہا.
’’ لیکن ......کیوں ......آخرتم نے ایسا کیوں کیا؟ ‘‘
’’ توپھر سنو......کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے محلے کے ایک آدمی کو قتل کیا تھا۔ ‘‘
’’ کیا !‘‘
اس کی بیوی دھک سے رہ گئی۔ پھر اس نے کہا.
’’ لیکن ......کیوں ......آخرتم نے ایسا کیوں کیا؟ ‘‘
’’ شریف کی کسی سے دشمنی تھی، اس کا دشمن اس کی موت چاہتا تھا......اس نے مجھ سے پانچ لاکھ روپے کے بدلے میں یہ کام کرایا ......میں شریف کو سیر کے بہانے اپنے ساتھ ایک کھنڈر میں لے گیا...... پھر میں نے خنجر نکال لیا......خنجر کو دیکھ کر وہ چونکا ......میں نے اسے بتایاکہ میں
اسے قتل کرنے لگا ہوں......اس نے میری بہت منتیں کیں، ہاتھ جوڑے ......رویا، لیکن مجھ پر اثر نہ ہوا......آخر مجھے اس کام کے پانچ لاکھ ملنے تھے ......جب میں اس پر خنجر کا وارکرنے لگا، تو
اس نے کہا،’’دیکھو رک جاؤ......ورنہ تم بھی نہیں بچ سکو گے ۔ ‘‘ ’’ مجھے یہ جرم
اس نے کہا،’’دیکھو رک جاؤ......ورنہ تم بھی نہیں بچ سکو گے ۔ ‘‘ ’’ مجھے یہ جرم
کرتے ہوئے یہاں کوئی نہیں دیکھ رہا ......اس لیے میں محفوظ رہوں گا۔ ‘
‘ عین اس وقت بارش شروع ہوگئی ...... اس کے منہ سے نکلا ۔
’’’ یہ ......یہ بارش اس جرم کی گواہی دے گی۔ ‘‘
اس کی بات سن کر میں ہنسا اور میں نے
‘ عین اس وقت بارش شروع ہوگئی ...... اس کے منہ سے نکلا ۔
’’’ یہ ......یہ بارش اس جرم کی گواہی دے گی۔ ‘‘
اس کی بات سن کر میں ہنسا اور میں نے
خنجر اس کے پیٹ میں اتاردیا.....
.پھر میں نے گڑھا کھود کر اسے دفن کردیا......
آج یہ بارش کے قطرے میرے ہاتھوں پر گرے ، تو وہ مجھے یاد آگیا، بس میں مسکرادیا......کیوں کہ کسی کو مجھ پر شک تک نہیں ہوا......
.پھر میں نے گڑھا کھود کر اسے دفن کردیا......
آج یہ بارش کے قطرے میرے ہاتھوں پر گرے ، تو وہ مجھے یاد آگیا، بس میں مسکرادیا......کیوں کہ کسی کو مجھ پر شک تک نہیں ہوا......
شریف کے بارے میں اب تک یہی خیال کیا جارہا ہے کہ وہ گھروالوں سے لڑ جھگڑ کر کہیں چلا گیا ہے ......اور اس کے گھر والے بھی اسی خیال میں ہیں، جب غصہ ٹھنڈا ہوگا، آجائے گا واپس......لیکن انھیں کیا پتا، وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔‘‘
’اور وہ پانچ لاکھ کہاں ہیں ؟ ‘‘
’اور وہ پانچ لاکھ کہاں ہیں ؟ ‘‘
بیوی نے آنکھیں نکالیں ۔
’’ اس کے دشمن نے مجھے بہت دھوکا دیا......جب میں اس سے رقم لینے گیا ، تو وہ صاف انکار کرگیا ......کہنے لگا ......’اُس نے ایسا کوئی کام کرنے کے لیے نہیں کہا تھا اور اگروہ چاہے ، تو مجھے گرفتار کراسکتا ہے ، کیوں کہ اب میں ایک آدمی کا قاتل
’’ اس کے دشمن نے مجھے بہت دھوکا دیا......جب میں اس سے رقم لینے گیا ، تو وہ صاف انکار کرگیا ......کہنے لگا ......’اُس نے ایسا کوئی کام کرنے کے لیے نہیں کہا تھا اور اگروہ چاہے ، تو مجھے گرفتار کراسکتا ہے ، کیوں کہ اب میں ایک آدمی کا قاتل
ہوں......‘ میں یہ سن کر سہم گیا اورواپس چلا آیا۔ ‘‘
’’ گویا تمھیں کچھ بھی نہ ملا .......اور تم ایک آدمی کے قاتل بن گئے ۔ ‘‘
’’خاموش رہو......کوئی سن لے گا ، تو......‘‘
اسی وقت دروازہ کھلا، ان کا بیٹا روتا ہوا اندرداخل ہوا۔ اس نے کہا.
’’ گویا تمھیں کچھ بھی نہ ملا .......اور تم ایک آدمی کے قاتل بن گئے ۔ ‘‘
’’خاموش رہو......کوئی سن لے گا ، تو......‘‘
اسی وقت دروازہ کھلا، ان کا بیٹا روتا ہوا اندرداخل ہوا۔ اس نے کہا.
’’امی......امی ! مجھے شریف کے لڑکے نے مارا ہے ۔ ‘‘
’’ اسے تو میں ابھی بتاتی ہوں ۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گئی .......شریف کا لڑکا گلی میں ہی کھیلتا نظر آگیا۔ اس نے اس کے دوچار ہاتھ رسید کردیے اور بولی ۔
’’آیندہ میرے بیٹے کو ہاتھ لگایا، تو تمھارا
’’ اسے تو میں ابھی بتاتی ہوں ۔ ‘‘
یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گئی .......شریف کا لڑکا گلی میں ہی کھیلتا نظر آگیا۔ اس نے اس کے دوچار ہاتھ رسید کردیے اور بولی ۔
’’آیندہ میرے بیٹے کو ہاتھ لگایا، تو تمھارا
بھی وہی حشرکروں گی جو تمھارے باپ کا کیا ہے ۔ ‘‘
شریف کے لڑکے کو یہ الفاظ عجیب سے لگے......وہ روتا ہوا گھر گیا اور یہ بات اپنی امی کو بتائی.....
.اس نے شریف کے بھائیوں سے ذکر کیا......وہ سیدھے پولیس اسٹیشن گئے،
شریف کے لڑکے کو یہ الفاظ عجیب سے لگے......وہ روتا ہوا گھر گیا اور یہ بات اپنی امی کو بتائی.....
.اس نے شریف کے بھائیوں سے ذکر کیا......وہ سیدھے پولیس اسٹیشن گئے،
تھانے دار کو یہ بات بتائی......پولیس آئی اور اختر کو پکڑ کر لے گئی......چندہی منٹوں میں انھوں نے ساری تفصیل اگلوالی......پھروہ اسے کھنڈرات تک لے گئی......
گڑھے سے لاش برآمد ہوگئی......پولیس جب اسے اپنے ساتھ لے جارہی تھی،
گڑھے سے لاش برآمد ہوگئی......پولیس جب اسے اپنے ساتھ لے جارہی تھی،
تواسے مظلوم شریف کے الفاظ یاد آرہے تھے ۔
’’ یہ ......یہ بارش اس جرم کی گواہی دے گی۔ ‘‘
اللہ تعالی بھی اس وقت تک بندے کی پردہ پوشی کرتا ہے جب تک وہ خوداپنے گناہ کی پردہ پوشی کرے
اور اللہ تعالی سے کوئی گناہ چھپا ہوا نہیں بلکہ اللہ تعالی مہلت دیتا ہے کہ کب میرا
’’ یہ ......یہ بارش اس جرم کی گواہی دے گی۔ ‘‘
اللہ تعالی بھی اس وقت تک بندے کی پردہ پوشی کرتا ہے جب تک وہ خوداپنے گناہ کی پردہ پوشی کرے
اور اللہ تعالی سے کوئی گناہ چھپا ہوا نہیں بلکہ اللہ تعالی مہلت دیتا ہے کہ کب میرا
بندہ مجھ سے معافی مانگے اور اپنے گناہ پہ نادم ہوجائے تو میں معاف کردوں
لیکن جو لوگ اپنے گناہ پہ فخر محسوس کرے توپھر کچھ دیر کیلئے تو اللہ مہلت دے دیتا ہے
لیکن جو لوگ اپنے گناہ پہ فخر محسوس کرے توپھر کچھ دیر کیلئے تو اللہ مہلت دے دیتا ہے
پر جب مہلت کی رسی کھینچ لیتا ہے پر بندے کو توبے کی توفیق بھی نہیں ملتی۔
لہذا جتنی جلدی ہوسکے اللہ تعالی سے اپنی گناہوں کا معافی مانگے
بے شک اللہ معاف کرنے والا ہے
لہذا جتنی جلدی ہوسکے اللہ تعالی سے اپنی گناہوں کا معافی مانگے
بے شک اللہ معاف کرنے والا ہے