جی ہاں یہ بھی تاریخ کاحصہ ہے۔پہلے یہ واضح کردوں اگر کوئی واقعہ آپ کی نظر سےنہیں گزراتواس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ واقعہ ہواہی نہیں یا وہ واقعہ بیان کرنےوالاجھوٹ بول رہا ہے۔اگر آپ کواس واقعے کی صداقت پر شک ہےتو بیان کرنے والے سےحوالہ طلب کر لیں۔مگر جھوٹا کہنا مناسب نہیں۔+1/12 https://twitter.com/curiosityone/status/1281292323553513473
اب اصل موضوع کی طرف آتی ہوں۔

شایدھم میں سے بہت سوں کےعلم میں یہ بات نہ ہو کہ ہندوستان کی تقسیم اور مسلمانوں کے لئیے الگ وطن کاجو تصور پیش کیاگیااس کاخواب نہ تو علامہ اقبال نےدیکھا اور نہ یہ قائد اعظم نے پہلی باریہ تجویز پیش کی تھی۔مارچ 1940میں لاہور میں مسلم لیگ کا اجلاس+2/12
جس میں قائد اعظم نےاپنی طویل افتتاحی تقریر میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کےمطالبے کی حمایت میں ماضی کا جوحوالہ دیا وہ پنجاب کے مہاسبھائی لیڈر لالہ لاجپت رائے کا تھاجس نے 1924میں اخبار ٹریبیون میں اپنے ایک مضمون میں برصغیر کی فرقہ وارانہ بنیادپرتقسیم کی سکیم پیش کی تھی۔+3/12
غالباً یہ برصغیر میں پہلی بار تھا کہ ایسی کوئی سکیم پیش کی گئی تھی۔ اس کی سکیم یہ تھی کہ ’’مسلمانوں کی چار ریاستیں ہوں گی۔(1) پٹھانوں کا صوبہ یا شمال مغربی سرحد۔ (2) مغربی پنجاب (3) سندھ اور (4) مشرقی بنگال۔ یہ متحدہ ہندوستان نہیں ہو گا۔ ہندوستان واضح طور پر مسلم انڈیا+4/12
اور غیرمسلم انڈیا میں تقسیم ہو گا۔‘‘ (6) قائد اعظم نے مارچ 40ء کے جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے انہی دنوں چھپی اندر پرکاش کی کتاب نکالی جس میں لالہ لاجپت رائے کا ایک خط شامل تھا جو اس نے 16 جون 1925ء کو کانگرس کے صدر سی۔آر۔داس کو لکھا تھا۔ قائد اعظم نے یہ پورا خط پڑھ کر سنایا +5/12
جس میں لاجپت رائے نےجو لکھا اس کالب لباب یہ تھا کہ ’’میں مسلمانوں کی تاریخ اور فقہ پڑھ کراس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ہندو اور مسلمان اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ آپ کو ہمارے لیےکوئی راہ نجات نکالنی چا یے۔‘‘
قائداعظم کےدوقومی نظرئیے یا تھیوری کوبھی ان نظریہ سازوں نے اپنے مقاصد کےلئے +6/12
استعمال کیاجبکہ حقیقت یہ ہےکہ انہوں نےمسلمانوں کےسیاسی مسئلے کوایک ڈھیلےڈھالےآل انڈیاوفاق میں رہتےہوئے قبول کیاتھاحکومت برطانیہ نےبالآخر یکم مئی 47ءکوکانگرسی مجلس عاملہ نےبرصغیرکی تقسیم کی منظوری دےدی۔جس میں پنجاب اور بنگال کوبھی تقسیم کیاگیاتھا۔منقسم پنجاب اورمنقسم بنگال+7/12
پرمبنی پاکستان کوقائداعظم ہمیشہ نامنظورکیاکرتےتھے۔وہ اسےکٹاپھٹا، کرم خوردہ اورناقابل عمل قراردیاکرتے تھے۔تاہم انہوں نےایک کوشش اورکی کہ پنجاب اوربنگال تقسیم نہ ہوں۔ان کاخیال تھاکہ کلکتہ کےبغیرمشرقی بنگال معاشی طورپرچل نہیں سکےگا۔انہوں نےسکھ رہنماؤں کوبہت یقین دہانی کرائی+8/12
اورگیانی کرتارسنگھ مان بھی گیا مگرماسٹرتاراسنگھ نہ مانا۔البتہ
بنگال کی تقسیم روکنےکی جو کوشش ہوئی اس میں قدرےکامیابی کی امید پیداہوئی۔حسین شہید سہروردی جومتحدہ بنگال کےمسلم لیگی وزیر اعلیٰ تھے،قائد اعظم کی اشیربادسے بنگال کےفارورڈ بلاک کےرہنماسرت چندربوس اوربنگال +9/12
پراونشل کانگرس کےصدر کرن شنکر رائےکوبنگال کومتحدرکھنے پرقائل کرنےمیں کامیاب ہوگئے۔تجویز یہ تھی کہ متحدہ بنگال ایک الگ تیسرا آزاد ملک بن جائے۔سہروردی نےبنگال کے رہنماؤں کوقائل کرنےکے
بعدماؤنٹ بیٹن کواس تجویز سےآگاہ کیا۔ماؤنٹ بیٹن نےپوچھاکہ جناح
کی اس بارےمیں کیارائےہےتو+10/12
سہروردی نےبتایاکہ یہ انکی رائے سےہی طےہواہے۔اسکےبعدماؤنٹ بیٹن نےجناح کےساتھ ملاقات میں اس بابت دریافت کیاتوجناح بولےکہ’’ہمیں آزادمتحدہ بنگال کےبننےپرخوشی ہوگی۔ہمیں امیدہےکہ ہمارےان کےساتھ بہت اچھےتعلقات ہوں گے".یادرہے
متحدہ بنگال کی اس ریاست کا نام+11/12
"سوشلسٹ ری پبلک آف بنگال"تجویزکیاگیاتھا۔لیکن گاندھی،نہرواور پٹیل نےبنگال کانگرس کی قیادت کو سہروردی کےساتھ اس قسم کی تجویز پراتفاق کرنےپرسخت برہمی کااظہار کیااوراسےکامیاب نہ ہونےدیا۔12/12

اقتباس نظریہ پاکستان ایک تاریخی مغالطہ اورموجودہ بحران۔ازحسن جعفرزیدی
You can follow @zahida_rahim.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.