احمدیت کی اشاعت اور بنیادی استدلالات کا مختصر جائزہ

عرفان شہزاد

امت مسلمہ کی طرف سے احمدیت کی بھرپور مخالفت اور احمدیوں کے خلاف شدید پراپیگنڈا کے باوجود نہ صرف پاکستان، بلکہ پوری دنیا میں احمدی مذہب کے پیروکاروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ احمدیت کا بیانیہ مضبوط کرنے میں
'اہل ایمان' نے جو کردار ادا کیا، وہ ناقابل فراموش تو ہے ہی، ناقابل معافی بھی ہے۔ دین حق کے تحفظ کے نام پر انھوں نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جو باطل کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ عام مسلمانوں کو اس معاملے میں اتنا بھڑکایا گیا ہے کہ وہ دین کا دفاع کرتے کرتے ابو جہل، ابو لہب، فرعون اور
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مخالف پروہتوں جیسے کردار بن گئے ہیں، اور یہی احمدیت کے لیے تقویت کا باعث بناہے۔ دلیل کے مقابلے میں گالیاں، جوابی استدلال پیش کرنے کے بجاے تمسخر اور حقارت آمیز القابات سے پکارنا،ہمیشہ سے باطل کے علم برداروں کا وتیرہ تھا، قرآن کے آئینے میں دیکھیے
کہ ایسا کون کرتا تھا:
اپنی ملت میں واپس شامل کرانے کے لیے زور زبردستی اور ڈرانا دھمکانا قوم شعیب کا جہالت آمیز شیوہ تھا:
اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ایسی آیات اور ان سے پیدا ہونے والا تاثر کسی احمدی اور کسی متوقع احمدی، جس کی نظر دلائل کے بجاے محض رویوں پر ہو، کو احمدیت کے لیے قائل کرنے میں کتنا موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح سماجی مقاطعہ قریش کے کفار کا آئیڈیا تھا، یہ عہد جاہلیت کا ہتھکنڈا تھا،
جسے آج مسلمانوں نے ''علی وجہ البصیرۃ'' اختیار کر رکھا ہے۔ اسی طرح دلیل کے مقابلے میں گھیراؤ، جلاؤ کرنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مخالف ان پروہتوں کا رد عمل تھا جو دلیل کے میدان میں ان سے شکست کھا گئے تھے:
عقیدے کی تبدیلی پر سرکاری پابندی لگانا فرعون کا کام تھا، اسے اصرار تھا کہ اس سے پوچھے بغیر کوئی اپنا عقیدہ بھی تبدیل نہیں کر سکتا:
آج ہماری عدلیہ کا فیصلہ ہے کہ عقیدہ تبدیل کرنے سے پہلے مجاز اتھارٹی سے اجازت لینا پڑے گی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مذہب تبدیل کرنے والے پر ارتداد کی سزا کا نفاذ کیا جائے۔ ہزاروں افراد نے نادرا کے ریکارڈ کے مطابق اپنا عقیدہ تبدیل کرکے احمدیت اختیار کی ہے۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے
کہ احمدیت کے خلاف اتنی گالم گلوچ، نفرت، ظلم و جبر اور سماجی مقاطعہ کے ہتھیار موثر کیوں نہ ہوئے، ہزاروں افراد نے احمدیت اختیار کیوں کی؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کیاجبریہ ہتھکنڈے آج تک کسی بھی گروہ کو مٹانے میں موثر ہو سکے ہیں؟ کیا آپ کے پاس دلائل کا فقدان ہے کہ آپ کو جبر
اور تشدد پر اترنا پڑا؟ کیا قانون سازی سے عقیدوں پر روک لگانا دلیل سے قائل کرنے کا متبادل ہو سکتا ہے؟ نظریات و عقائدکی تبدیلی قانون کی ہتھکڑیوں اور پراپیگنڈا کے شو ر سے روکی نہیں جا سکتی۔ کبھی مسلمانوں کا اخلاق دین کی ترویج میں معاون ہوا کرتا تھا،
اب ان کا یہ انداز، دین کی تخریب میں سہولت کار بنا ہوا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کو دلائل سے آراستہ کرنا کافی ہوتاہے۔

مسلمانوں کا ایک بنیادی فریضہ سماج سے جبر کا خاتمہ بتایا گیا ہے۔ جس کے لیے مسلم حکمران کو جنگ تک کرنے کا حکم دیا گیا ہے:
الٹا، یہاں مسلمان ہی جبر کا علم بردار بن گیا ہے۔ کسی کے عقیدے پر اثر انداز ہونے کے لیے مسلمانوں کو جو لائحۂ عمل بتایا گیا ہے، وہ علم و دلیل کے ساتھ دعوت، نصیحت اور شایستہ مباحثہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے:
مزید ستم ان اہل علم نے ڈھایا جنھوں نے قلم کو تلوار، دلیل کو ہتھیار اور مکالمہ کو مناظرہ بنا دیا۔ استدلال کے بجاے پراپیگنڈا کو وتیرہ بنا لیا گیا۔ انھیں احساس نہیں ہوا کہ آواز بلند کرنے سے دلیل مضبوط نہیں ہو جاتی، بلکہ مضبوط دلیل بھی بلند آہنگی میں بھانڈ کا بے سر ا راگ بن جاتی ہے۔
اس روش سے دلیل اوردعوت سے بات کرنے والوں کی راہ مسدود ہوئی اور عام مسلمانوں کا مقدمہ کم زور ہوا۔دلائل کے باوجود کوئی آپ کی بات سے قائل نہیں ہوتا،تو آپ کا کام ختم ہو گیا۔ زبردستی کسی کا عقیدہ تبدیل کرانا آپ کا کام نہیں۔یہ اختیار تو خدا نے خود قدرت رکھنے کے باوجود استعمال نہیں کیا
دین کے قبول و اختیار میں دین کا یہ اصل الاصول کیسے نظر انداز ہو گیا:
ور یہاں لوگ انسان ہو کر یہ اختیار استعمال کرنا چاہ رہے ہیں! یہ فرعون کی روش ہے، یہ رسولوں کا اسوہ نہیں، اور نہ ان کے پیروکار ایسا کر سکتے ہیں۔ اپنی روش پر نظر ثانی کیجیے، آپ کس کی راہ چل رہے ہیں؟

یہ امکان رد نہیں کیا جا سکتا کہ کچھ لوگ مبینہ طور پر معاشی مفادات کی خاطر
، بیرون ملک سیاسی پناہ حاصل کرنا احمدیوں کے لیے سہل ہوتاہے۔ مگر اس پر بھی تو غور کیجیے کہ یہ ان کے لیے سہل کیوں ہوتا ہے؟ملک میں احمدیوں کے لیے عدم تحفظ کی موجودہ صورت حال بھی تو عام مسلمانوں نے پیدا کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے ان کے لیے بیرون ملک چلے جانا ایک بہتر انتخاب بن جاتا ہے۔
بہرحال، اس مضمون کے مخاطب وہ لوگ نہیں جو کسی لالچ میں احمدیت اختیار کر لیتے ہیں، ہمارے مخاطب احمدی اور احمدیت اختیار کرنے والے سنجیدہ افراد ہیں۔ احمدیت کے ساتھ مکالمہ کرنا ہی وہ واحد راستہ تھا جس سے جدا ہو جانے والے راستے واپس مل سکتے تھے۔ مارے ہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بنیادی
استدلال کو طے کیے بغیر ہی تفصیلات میں پہنچ جاتے ہیں، جس سے بحث نتیجہ خیز ہونے کے بجاے بھول بھلیوں میں بھٹکتی پھرتی ہے۔ ہم یہاں اپنی بحث احمدیت کے بنیادی استدلالات تک کومحدود رکھیں گے۔

Please check the next thread related to this article by the name خواب و مکاشفات

Jazakallah.
You can follow @speakuphuman.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.