تاریخ کامطالعہ بتاتاہےکہ کتنی ہی روشن دماغ ہستیاں، جن کانام ہم آج فخرسے لیتےہیں،اپنےاپنےدورمیں ملائیت کے ہاتھوں زیرعتاب رہیں اورانہیں ملحد،منکراورکافرقراردےکرتشددکانشانہ بنایاگیا۔آج کےدورمیں انسان کےمریخ پرقدم رکھنےاورسینکڑوں نوری سال کےفاصلےپرنئی دنیاؤں کی دریافت کا ذکرہے+1/25
ہماراپڑوسی ملک بھارت بھی مریخ پراپنا خلائی جہازمنگلیان بھیج چکا ہے،جب کہ ہم سائنس اورسائنس دانوں کےمتعلق اسی تعصب اورتنگ نظری کامظاہرہ کر رہےہیں،جوایک ہزار برس قبل ہمارےزوال کاسبب بنا۔ہم نےجس طرح پہلےپاکستان کےنوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹرعبد السلام کوٹھکرایااب اسی طرح+2/25
کچھ ناعاقبت اندیش پاکستان کےایک اور ممتازسائنس دان،ماہرتعلیم اوردانشور ڈاکٹرپرویز ہودبھائی کےپیچھےہاتھ دھو کرپڑگئے ہیں جہاں بوعلی سینا،الکندی، الفارابی اورالرازی جیسی عظیم شخصیات کوبدعتی اورمنکرہونےکی تہمت سہنی پڑی،وہاں پرویزہودبھائی کی ناقدری ہوناکوئی اچھنبےکی بات نہیں۔+3/25
سوشل میڈیا پر کچھ نوجوان یہ دریافت کرتے پائے گئے ہیں کہ پرویز ہود بھائی نے اس ملک کے لئے اور بالخصوص سائنس اور تعلیم کےلئےآخرکیاہی کیاہے،اوریہ کہ وہ سائنس کےعلاوہ دوسرےموضوعات پر بات کیوں کرتےہیں، جب کہ وہ ان کا میدان نہیں؟آج کی دنیامیں لاعلمی کوئی جوازنہیں اور نہ ہی کسی+4/25
کی بےخبری سےکسی شخص کی خوبیوں اورخدمات سے انکار کاجوازبنتا ہے،البتہ مناسب ہےکہ یہاں ڈاکٹر پرویز ہودبھائی کی اس ملک میں بہتری لانےاورسائنس کےفروغ کےلئےکی جانےوالی خدمات اورجدوجہدکاایک مختصرجائزہ پیش کردیا جائے،اور وہ سیاسی وسماجی پس منظربھی بیان کر دیاجائے،جس کی بنیاد پر +5/25
نہ صرف انہیں حق پہنچتاہےکہ وہ سائنس کےعلاوہ سیاسی،دفاعی اور سماجی مسائل پراپنی رائےدیں،بلکہ ان پرلازم ہےکہ وہ قوم کےسامنےاپنی رائےرکھیں تاکہ لوگ ان کےعلم سےاور نکتہ نظرسےمستفیدہوسکیں۔دنیاکی صف اول کی درس گاہ میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سےگریجویشن کےبعد پرویزہودبھائی+6/25
پاکستان لوٹ آئےاورقائد اعظم یونیورسٹی سےدرس وتدریس سے وابستہ ہوگئے۔بعدمیں آپ نےجوہری طبیعات میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔راقم الحروف نےایک موقع پران سےدریافت کیا کہ ایم آئی ٹی جیسے بہترین ادارے سے پی ایچ ڈی کے بعد انہوں نےامریکہ یا بیرون ملک اپنا کیریئربنانےکاکیوں نہ سوچا؟انھوں+7/25
نے یہ سن کرمیری جانب قدرےحیرانی سے دیکھااورجواب دیاکہ پاکستان ان کاملک ہے،انکےسامنےصرف اپنےملک کی خدمت کرنےکاسوال تھا،اوروہ کسی صورت اپنے ملک کےمقابلےمیں کسی اورکوترجیح نہیں دےسکتےتھے۔میں نےاپنےسوال کوایک دوسرےرنگ میں یوں پیش کیاکہ کیاکبھی کسی بات نے انھیں یہ سوچنےپرمجبور+8/25
کیاکہ شاید انکاباہر ٹھہرنا ہی ٹھیک رہتا؟انہوں نےجواب دیاکہ انہیں کبھی کبھی لوگوں کارویہ دکھ تودیتاہے، مگراپنےملک سےدورہونےکاکوئی سوال نہیں بنتا،ذرا آج کےطالب علموں کی سوچ سے موازنہ کر کے دیکھئےجو ہائیر ایجوکیشن کمیشن یعنی سرکاری خرچےپر ملک سےباہر تعلیم حاصل کرنےجاتے ہیں+9/25
اورکتنے ہیں جوملک واپسی کاارادہ یاخواہش رکھتے؟
80کی دہائی میں جب ملک میں آمریت کاراج تھااورجنرل ضیاءالحق اقتدارپر گرفت مضبوط رکھنےاوراپنی سیاست کو مستحکم کرنےکےلئےبےدردی سےلوگوں کےمذہبی جذبات کااستحصال کررہاتھا۔ ڈالرزدہ جہادکانعرہ لگاکرنہ صرف نوجوانوں کوافغانسان کی جنگ+10/25
میں جھونک دیا گیابلکہ نصاب تعلیم کوبےرحمی سےمسخ کرتےہوئےاس میں انتہا پسندی کےبیج بودئیےگئے۔اسکول کے
قاعدوںمیں’ب‘سےبم،’ج‘سےجہاداور’ش
‘سےشہادت پڑھائی جانےلگی۔بچوں کی معصومیت نوچتےہوئےمذہبی انتہاپسندی کی ایسی فصل بودی جسےکاٹتےکاٹتے آرمی پبلک سکول کےمعصوم بچوں سمیت پچاس ہزار+11/25
سے زائد شہری جانیں گنواہ بیٹھے۔ڈاکٹر پرویز ہود بھائی 80 کی دہائی کےان دانشوروں میں سے ہیں،جنہوں نےایک آمرکی غلط پالیسیوں،بالخصوص نصاب تعلیم سے چھیڑچھاڑپربھرپورتنقیدکی اوراسےقوم کےمستقبل کےلئےنقصان دہ قراردیا۔جنرل ضیاءالحق کی نام نہاد اسلامائزیشن نےجہاں بہت سےظلم ڈھائے +12/25
وہاں اس نےسائنس کےساتھ بھی کھلواڑ کیا۔اس کی ایک مثال ’’اسلامی سائنس‘‘کاچٹکلہ ہے،’’اسلامی سائنس‘‘ کے عنوان کےتحت سائنس کےمعروضی طریقہ کار کی بےحرمتی کی گئی اورخرد افروزی اورمعقولیت کوجبری جلا وطن کردیاگیامثال کےطورپراس کےنتیجےمیں "باجماعت نمازکےثواب"،"خدا کازاویہ" ،"جنت کے+13/25
زمین سےدورجانےکی رفتار‘‘،’’دوزخ کا درجہ حرارت‘‘، ’’منافقت معلوم کرنےکافارمولا‘‘،’’جنات کی ماہیت‘‘ اور یہاں تک کہ’’جنات کےذریعےتوانائی کے مسئلےکاحل‘جیسی غیرمعمولی ’تحقیقات‘
سامنے آئیں،جوآئن سٹائن کوبھی
ورطہ حیرت میں ڈال دیں۔اس نوعیت کی تحقیق سےمذہبی جزبات کی توشاید تسلی+14/25
ہوجاتی ہو،مگراس کوسائنس قراردیناگمراہ کن حد تک مضحکہ خیز ہے۔اس پرظلم یہ کہ یہ سب حکومتی سرپرستی میں ہوتارہا۔ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نےاس کےمد مقابل تن تنہامزاحمت کی اور اخبارات اورجرائدمیں مضامین لکھ کراس نام نہاداسلامی سائنس کا پول کھولا۔جونہ صرف سائنس کےساتھ مذاق تھابلکہ+15/25
اسلام کی بھی بےتوقیری تھی۔ اس کے نتیجے میں سرکاری خرچے پر پروان چڑھائی جانےوالی’’اسلامی سائنس‘‘ کےکل پرزےآپ کےمخالف ہوگئے اورنت نئے الزامات تراشنےلگے۔ڈاکٹر صاحب نے اس ساری صورتحال کا۔مقابل9 ایک پرامن مفکر کی طرح اپنےقلم کےذریعےکیاڈاکٹر پرویزہود بھائی نےہر ممکن طریقےسے+16/25
میں سائنسی شعورجگانےکےلئےاپنی کوشش جاری رکھےہوئےہیں۔آپ نے1988میں پاکستان ٹیلی ویژن کے لئے’’راستےعلم کے‘‘نامی13اقساط پر مبنی سیریزتیارکی۔جس میں پاکستان کے تعلیمی نظام کےخامیوں اورانکودرست بنانےکےلئےتجاویز پیش کی گئی مگر افسوس کہ قریباََ30برس گزرجانےکےبعد بھی ارباب اختیار+17/25
ان خامیوں کودور کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ڈاکٹر ہود بھائی نے1994میں پی ٹی وی سے"بزم کائنات "نامی سیریز پیش کی جوسائنسی موضوعات پرعام فہم انداز میں معلومات بہم پہنچانےاورطلباءکی سائنس میں دلچسپی پیداکرنےکی ایک بہترین کاوش تھی۔پی ٹی وی سےسن 2001میں 13اقساط پرمبنی’’اسرار جہاں‘‘+18/25
نامی سیریزکی۔ریڈیوایف ایم 105کے لئیے16پروگرام کئیے۔ڈاکٹر صاحب چارکتابوں کےمصنف اورمدیرہیں۔آپ نے1991میں
Islam and Science: Religious Orthodoxy and the Battle for Rationality
نامی ایک معرکۃ الآراکتاب تحریرکی جس کادنیاکی کئی زبانوں،بشمول عربی،ترکی،ہسپانوی،انڈونشین،ملائشین اور+19/25
اردو میں ترجمعہ ہوچکاہےڈاکٹرصاحب،سائنس برائےتعمیریا ایٹم برائےامن کےخواہاں ہیں۔آپ جوہری ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی سےبخوبی آگاہ ہیں اوراس ضمن میں ایک واضح اصولی موقف رکھتےہیں۔جوہری ہتھیاراورایٹم بم، چاہےوہ امریکہ،اسرائیل،جنوبی کوریا، ایران،بھارت یاپاکستان،الغرض دنیاکی کسی بھی+20/25
طاقت کے پاس ہوں انسانیت کی تباہی کاسامان ہیں۔جوہری ہتھیاروں کی ہلاکت خیزی کی ایک جھلک ہم ہیروشیما اورناگاساکی میں دیکھ چکےہیں،جہاں پلک جھپکنےمیں ایک پوری نسل ختم کردی گئی۔صرف یہی نہیں،تابکاری شعاؤں کےبداثرات نسل درنسل منتقل ہوتےرہتےہیں اورنسل انسانی عذاب میں مبتلا رہتی ہے+21/25
آپ نےجوہری عدم پھیلاؤاور دنیاکو تابکاری کی ہلاکت سےمحفوظ بنانےکےلئے شعوراجاگرکرنےکی غرض سےڈاکومینٹریز بنائیں،مضامین لکھےاورتقاریرکیں۔آپ 2013سےاقوام متحدہ کےسیکرٹری جنرل کےجوہری تخفیف اسلحہ کی مجلس مشاورت(ایڈوائزری بورڈ)کےرکن کی حیثیت سےبھی اپنےفرائض سرانجام دے رہےہیں۔+22/25
ڈاکٹرپرویزہودبھائی،گزشتہ45برس سےدرس وتدریس سےوابستہ ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی کےعلاوہ آپ نے لاہوریونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز)میں بھی خدمات انجام دیں اورکئی برس ایف سی سی میں بھی پڑھاتےرہےہیں۔عام طورپراساتذہ کسی ایک مضمون میں مہارت رکھتےہیں۔جبکہ ڈاکٹر صاحب فزکس کےتمام+23/25
مضامین پریکساں گرفت رکھتےہیں،چاہےوہ کلاسیکی میکانیات ہوکوانٹم میکانیات،جوہری طبیعات ہوکہ ذراتی طبیعات،انکی تمام مضامین پرمکمل کمانڈہےآپکے60سےزائدمقالہ جات دنیاکےبہترین تحقیقی جریدوں میں شائع ہو چکےہیں۔آپ کاتحقیقی کام نہایت پیچیدہ موضوعات پرہےمثلاً"کوانٹم کرومو ڈائنامکس"
+24/25
طبیعات کاایک مشکل ترین میدان تصور کیاجاتاہے،پاکستان میں اس موضوع پرکام کرنےوالےشایدہی مل سکیں۔آپ ایک دانشوراورمفکرہیں۔دنیابھرسےآپکوخطاب کےلئےمدعوکیاجاتاہےآپ کی خدمات کےاعتراف میں آپکودنیابھرسےایوارڈمل چکےہیں۔
(ڈاکٹرپرویزہودبھائی پرسبزخزاں کے تحریرکردہ مضمون سےچنداقتباسات)
25/25
You can follow @zahida_rahim.
Tip: mention @twtextapp on a Twitter thread with the keyword “unroll” to get a link to it.

Latest Threads Unrolled:

By continuing to use the site, you are consenting to the use of cookies as explained in our Cookie Policy to improve your experience.